اقتدار چھننے کے بعد اخوان المسلمون نے دوبارہ خفیہ سرگرمیوں کا آغاز کر دیا

تنظیم کو کالعدم قرار دینے کے کئی عوامل موجود ہیں: ماہرین

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size
3 منٹس read

مصر میں اخوان المسلمون کے ایک سالہ اقتدار کے پرتشدد اور ناپسدیدہ انداز میں خاتمے کے بعد جماعت نے پھر سے اپنی سرگرمیوں کا خفیہ آغاز کر دیا ہے۔ تیس جون کو سابق صدر ڈاکٹر محمد مرسی کے خلاف اٹھنے والے عوامی احتجاج کے طوفان نے نہ صرف ملک میں ایک منتخب جمہوری حکومت کی بساط لپیٹ دی بلکہ اخوان کی قیادت کےخلاف طاقت کے استعمال کے بعد جماعت کو حکمت عملی تبدیل کرنے پر بھی مجبور کر دیا ہے۔

مصری دانشوروں کا خیال ہے کہ اخوان المسلمون کو اپنے کیے کی سزا ملی ہے۔ معزول صدر محمد مرسی کوعوامی مطالبہ مانتے ہوئے حکومت چھوڑ دینی چاہیے تھی اور ان کی جماعت اخوان المسلمون کو تشدد کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے پرامن رہتے ہوئے عوام کے مطالبات پرغور کرنا چاہیے تھا۔ جماعت نے غیر دانشمندانہ حکمت عملی اپنائی اور ریاست سے ٹکر لینے کا فیصلہ کر کے اپنی طاقت ختم کر بیٹھی ہے۔ اس وقت جماعت کی صف اول اور صف دوم کی قیادت زیرحراست ہے اور جو پکڑے نہیں جا سکے ہیں وہ روپوش ہیں لیکن پولیس مسلسل ان کا پیچھا کر رہی ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں جماعت کے لیے ڈنکے کی چوٹ پر اپنی دعوتی و سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنا ناممکن ہے۔ جماعت نے اس کا ایک متبادل حل خفیہ سرگرمیوں کی شکل میں نکالا ہے۔ جماعت کی "انڈر گراؤنڈ" قیادت کے درمیان رابطے ٹیلیفون یا موبائل کے ذریعے نہیں بلکہ ایک دوسرے تک زبانی پیغام رسانی ہو رہی ہے۔

اخوان المسلمون کی پالیسیوں کے ناقدین مزید کہتے ہیں کہ تیس جون کے بعد جماعت نے تشدد کا راستہ اختیار کر کے اپنی عوامی مقبولیت کھو دی۔ موجودہ عبوری حکومت جماعت کو ایک کالعدم تنظیم قرار دینے پرغور کر رہی ہے۔ جماعت پرپابندیاں عائد کرنے کے کئی عوامل موجود ہیں۔ اگرحکومت ایسا کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اسے کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔

فوج کی جانب سے اخوان قیادت کے خلاف کریک ڈاؤن اور اس کے مالی سوتوں پر پابندیاں عائد کر کے جماعت کو سنگین مشکلات سے دوچار کیا گیا ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ اخوان کے باقی ماندہ کارکن اپنی طاقت بحال کرنے کے لیے پھر سے تشدد کا راستہ اپنائیں۔ اگرایسا ہوا تو جماعت حتمی طورپر ختم ہوجائے گی، کیونکہ اب اخوان المسلمون سے نفرت کرنے والوں میں عوام بھی شامل ہو گئے ہیں۔

مقبول خبریں اہم خبریں

مقبول خبریں