عالمی ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ عراق اور شام میں سرگرم دہشت گرد تنظیم دولت اسلامی(داعش) کے جنگجو اپنے ہاں یرغمال خواتین کو زبردستی مانع حمل ادویہ دیتے رہے ہیں تاکہ وہ جنگجوؤں کے ساتھ جنسی تعلقات کے نتیجے میں حاملہ نہ ہو سکیں۔
امریکی اخبار’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ داعشی جنگجو شمالی عراق میں یزیدی فرقے کی یرغمال بنائی گئی خواتین کو جبراً مانع حمل ادویہ کے استعمال پر مجبور کرتے رہے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ داعش کے چنگل سے 37 خواتین فرار میں کامیاب ہوئیں۔ ان سب نے بتایا کہ دوران حراست انھیں مانع حمل گولیاں کھلائی جاتیں یا انھیں مانع حمل ٹیکے لگائے جاتے رہے ہیں۔
اخباری رپورٹ کے مطابق داعشی جنگجو لونڈی بنائی گئی خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرتے، حاملہ ہونے والی خواتین کے حمل ضائع کرا دیتے تھے یا انھیں مانع حمل گولیاں کھلائی جاتی تھیں۔
امراض نسواں کے ماہر ایک امریکی ڈاکٹر نے بتایا کہ عراق میں اقوام متحدہ کی زیرنگرانی چلنے والے اسپتالوں میں 700 یزیدی خواتین کا علاج کیا گیا جنہیں داعشی جنگجوؤں کی جانب سے جنسی ہوس کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان سات سو میں سے صرف پانچ فی صد عورتیں اپنے اصلی شوہروں سے حاملہ ہوئی تھیں۔
ایک نوخیز یزیدی لڑکی نے فرار کے بعد اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں بتایا کہ داعشی جنگجو اسے بھیڑ بکری کی طرح ایک سے دوسرے کو فروخت کرتے۔ اس دوران ایک داعشی جنگجو نے مانع حمل ادویہ کا ایک پورا پیکٹ خرید کر اسے دیا اور کہا کہ وہ یہ ادویہ استعمال کرتی رہے۔ اس طرح کی ادویات دوسری خواتین کو بھی دی جاتی تھیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ برس امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی یزیدی خواتین کے ساتھ اس غیرانسانی سلوک کے بارے میں چشم کشا انکشافات کیے تھے۔
ایک دوسری خاتون نے اخبار ’’الشرق الاوسط‘‘ کو بتایا کہ اسے ایک داعشی جنگجو نے دوسرے کے ہاتھ فروخت کیا۔ دوسرے نے خریدتے وقت پہلے سے دریافت کیا کہ آیا یہ حاملہ تو نہیں ہے۔ اس نے نفی میں سرہلایا۔ اس کے بعد مجھے مانع حمل ادویہ کھانے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ داعشی جنگجو یزیدی لڑکیوں بے رحمانہ سلوک کرتے رہے تھے۔
یاد رہے کہ داعش نے سنہ 2014ء کے موسم گرما میں شمالی عراق کے علاقے سنجار پر حملہ کر کے وہاں آباد یزیدی اقلیت سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مردو خواتین کو یرغمال بنا لیا تھا۔ بچ جانے والے یزیدی لوگ آج بھی عراق کے خود مختار صوبہ کردستان میں کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ ان کی ایک بڑی تعداد داعش کے قبضے میں ہے۔