حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ تو نہیں:برطانیہ میں پہلی مسلم خاتون ڈپٹی ڈسٹرکٹ جج کی گفتگو

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

باپردہ مسلم خواتین اپنی صلاحیتوں کے مطابق مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتی ہیں اور حجاب معاشرے میں ان کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوتا۔ یہ کہنا ہے برطانیہ میں پہلی سرپوش اوڑھنے والی مسلم خاتون جج رفیعہ ارشد کا۔

40 سالہ رفیعہ کو گذشتہ ہفتے برطانیہ کے علاقے مڈلینڈز سرکٹ میں ڈپٹی ڈسٹرکٹ جج مقرر کیا گیاہے۔اس طرح ان کے ایک دیرینہ خواب نے تعبیر پائی ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے 11 سال کی عمر ہی میں قانون کا پیشہ اختیار کرنے کے خواب دیکھنا شروع کردیے تھے لیکن سوال یہ تھا کہ کیا ایک نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے اور حجاب اوڑھنے کے باوجود وہ برطانیہ میں جج کے منصب پر فائز ہوسکتی ہیں؟

Advertisement

برطانیہ کے جوڈیشیل دفتر کے یکم اپریل 2019 کو فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق انگلینڈ اور ویلز کی ماتحت عدالتوں میں 3210 جج کام کررہے ہیں۔ان میں صرف 205(6 فی صد) جج سیاہ فام ، ایشیائی اور نسلی اقلیتوں (بیم) کے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ان تمام جج میں قریباً ایک تہائی 1013 (31 فی صد) خواتین ہیں۔

رفیعہ ارشد اب ان خواتین ججوں میں سے ایک ہیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے تین بچے ہیں۔انھوں نے اپنے تقرر کے بعد ایک انٹرویو میں کہا:’’وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہیں کہ برطانوی معاشرت میں تنوع کی آواز بلند آہنگ ہو اور صاف انداز میں سنی جائے۔یہ صرف مسلم خواتین ہی نہیں بلکہ تمام خواتین کے لیے اہم ہے۔‘‘

انھوں نے بتایا کہ انھیں بہ طور جج تقرر کے بعد مرد وخواتین دونوں کی طرف سے ای میل کے ذریعے بڑی تعداد میں تہنیتی پیغامات موصول ہوئے ہیں اورانھوں نے بالخصوص اس بات پرخوشی کا اظہار کیا ہے کہ ایک سرپوش اوڑھنے والی خاتون بھی برطانیہ میں جج بن گئی ہے۔ان میں سے بہت سے لوگوں کا پہلے یہ خیال تھا کہ ایک عورت تو برطانیہ میں بیرسٹر بھی نہیں بن سکتی ، چہ جائیکہ وہ منصب قضاۃ پر فائز ہوجائے ۔

رفیعہ ارشد ویسٹ یارکشائر میں پلی بڑھی تھیں۔وہ بتاتی ہیں کہ قانون کا پیشہ اختیار کرتے وقت انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور خود ان کے خاندان کے افراد نے ان کے حجاب اوڑھنے کی مخالفت کی تھی اور یہ کہا تھا کہ اس صورت میں ان کی کامیابی کے امکانات معدوم ہوسکتے ہیں لیکن اس کے باجود انھوں نے ہمت ہاری اور نہ ان کے عزم میں کمی واقع ہوئی۔

وہ بتاتی ہیں:’’جب میں2001ء میں ’انزآف کورٹ اسکول آف لا‘ میں ایک اسکالرشپ کے لیے انٹرویو دینےجا رہی تھی تو ہمارے خاندان کے ایک رکن نے یہ مشورہ دیا کہ میں حجاب نہ پہنوں کیونکہ اگر میں نے ایسا کیا تو میرے کامیابی امکانات ڈرامائی طور پر کم ہوجائیں گے۔حتیٰ کہ اس رشتے دار نے مجھے خبردار بھی کیا لیکن میں نے ان کے دباؤ کے آگے جھکنے سے انکار کردیا۔‘‘

انھوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ ’’میں اس ادارے میں حجاب پہن کر انٹرویو کے لیے گئی،میں کامیاب ٹھہری اور مجھے وظیفے کے لیے منتخب کر لیا گیا تھا۔ میری زندگی میں یہ ایک فیصلہ کن موڑ تھا اور اس سے میرے عزم کو مزید تقویت ملی تھی۔‘‘

لندن میں قانون کی تربیت کے بعد رفیعہ نے 2002ء میں نوٹنگم میں ٹرینی وکیل کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا تھا۔ پھرانھوں نے 2004ء سینٹ فیملی لا چیمبرز میں بہ طور بیرسٹر کام کیا۔ وہ گذشتہ 15 سال کے دوران میں بچوں ، جبری شادی ،خواتین کے ختنے اور اسلامی شریعت سے متعلق کیسوں کی بہ طور وکیل پیروی کرتی رہی ہیں۔وہ اسلام کے عائلی قوانین کے موضوع پر ایک کتاب کی مصنفہ بھی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ انھیں قانون کی پریکٹس کے دوران میں اکثر متعصبانہ رویّے کا سامنا رہا ہے اور بعض اوقات دلچسپ واقعات بھی پیش آئے ہیں۔وہ بتاتی ہیں:’’ایک مرتبہ میں عدالت میں گئی تو مجھے ایک اردلی نے پوچھا کہ’’کیا میں کوئی مؤکلہ یا درخواست گزار ہوں۔‘‘اس پر میں نے جواب دیا کہ ’’نہیں۔‘‘وہ پھر یوں گویا ہوا کہ ’’آپ پھر ضرور مترجم ہوں گی۔‘‘ میں نے اس کا ناں میں جواب دیا تو پھر وہ بولا:’’شاید آپ یہاں کام کے تجربے کے سلسلے میں آئی ہوں گی۔‘‘اس کا بھی میں نے نہیں میں جواب دیا اور اس کو بتایا کہ ’’میں دراصل ایک بیرسٹر ہوں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ برطانیہ ایسے معاشرے میں بھی ایک محجب خاتون کو وکیل کے طور پر قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے لیکن انھوں نے واضح کیا کہ ’’میرا تقرر خالصتاً میرٹ پر ہوا ہے اور اس بنا پر نہیں ہوا کہ میں حجاب پہنتی ہوں۔اس میں مسلم خواتین کے لیے سبق پنہاں ہے کہ وہ بھی حجاب پہن کر زندگی کے میدانوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ سکتی ہیں۔‘‘

مقبول خبریں اہم خبریں