سعودی عرب میں خواتین کو بااختیار بنانے اور انھیں مختلف شعبوں میں ترقی کے مواقع مہیّا کرنے کے لیے حالیہ برسوں میں کیے گئے اقدامات کے اثرات سامنے آرہے ہیں۔اب خواتین زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح کھیلوں کے میدان میں بھی آگے آ رہی ہیں اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔
سعودی عرب میں اب خواتین کی پہلی فٹ بال لیگ منعقد کی جارہی ہے۔اس میں ملک بھر سے ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔اس کے ذریعے بہت سی خواتین کھلاڑیوں کی امیدیں برآرہی ہیں اور ان کے لیے عالمی سطح پر اپنے جوہر دکھانے کے نئے نئے مواقع پیدا ہورہے ہیں۔
ان ہی خواتین میں سعودی کھلاڑی مریم الانجری بھی شامل ہیں۔ وہ حال ہی میں تشکیل پانے والی سعودی عرب کی خواتین فٹ بال ٹیم کا حصہ ہیں۔واضح رہے کہ سعودی حکومت نے 17 نومبر کو خواتین کی امیچور لیگ کی تشکیل کی اجازت دی تھی۔
مریم فٹ بال کی پیشہ ور کھلاڑی بننا چاہتی تھیں۔ان کا یہ خواب اب شرمندۂ تعبیر ہونے کو ہے۔وہ کہتی ہیں:’’بالآخر میرا خواب پورا ہونے کو ہے اور میں بہت خوش ہوں۔میں پہلے بیرون ملک کھیلتی رہی ہوں لیکن اب اللہ کا شکر ہے کہ میں اپنےملک میں کھیل سکتی ہوں۔ان شاء اللہ مجھے اب ایک پیشہ ور کھلاڑی بننے کا بھی سنہری موقع ملے گا۔‘‘
سعودی عرب میں خواتین کی پہلی فٹ بال لیگ کا سرکاری طور پر نومبر میں آغاز ہوا تھا۔پہلے یہ فروری میں کرونا وائرس کی وَبا کی وجہ سے ملتوی کردی گئی تھی۔
سعودی کے شہر الخبر میں الشرقی النار فٹ بال کلب کے تربیتی سیشن میں مختلف عمروں کی باون خواتین کھلاڑیوں نے حصہ لیا ہے۔شہر کے ایک بڑے میدان میں ان کھلاڑیوں نے فٹ بال کے کھیل میں مہارت کے لیے مختلف مشقیں کی ہیں اور انھیں جسمانی کسرت کے علاوہ مختلف ہُنر سکھائے گئے ہیں۔
اس فٹ بال کلب کی کوچ مریم البوطیری نے بتایا کہ ’’ ہم نے انھیں مجموعی جسمانی فٹنس برقرار رکھنے کے علاوہ مختلف مہارتیں سکھائی ہیں۔ہمیں امید ہے کہ اس تربیت کے ذریعے ہم انھیں فٹ بال کی پیشہ ور کھلاڑی بنانے میں مدد دیں گے۔‘‘
کوچ نے بتایا کہ انھوں نے خود فٹ بال کی عالمی فیڈریشن تنظیم( فیفا) سے بہت سے سرٹی فیکیٹس حاصل کررکھے ہیں۔ وہ قبل ازیں متحدہ عرب امارات کی قومی ٹیم کے ساتھ بھی کام کرچکی ہیں۔انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ’’ہم بہت سے ٹورنا منٹس جیت سکتے ہیں۔‘‘
سعودی عرب کی تاریخی خواتین فٹ بال لیگ میں جدہ ، الریاض اور الدمام سے تعلق رکھنے والی چوبیس ٹیمیں حصہ لیں گی۔چیمپئن شپ جیتنے والی ٹیم کو کپ کے علاوہ ایک لاکھ تینتیس ہزار ڈالر کے انعامات بھی ملیں گے۔
اس ٹورنا منٹ میں حصہ لینے والی کھلاڑیوں کے والدین میں بھی جوش وخروش پایا جارہا ہے۔ ایک سعودی کھلاڑی ریناد الغامدی کی والدہ کا کہنا تھا کہ ’’مجھے اپنی بیٹی پر فخرہے۔سعودی عرب میں اب خواتین کے لیے میدان کھلنے کے بعد مجھے امید ہے کہ میری بیٹی مستقبل میں اپنا نام روشن کرے گی۔اب وہ اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرسکتی ہے۔‘‘
یاد رہے کہ سعودی عرب نے فروری 2020ء میں خواتین کی پہلی فٹ بال لیگ کا آغاز کیا تھا۔ یہ اقدام بھی سعودی عرب کی کھیل اور تفریح کے شعبوں میں وسیع تر اصلاحات کا حصہ تھا۔سعودی ویمن لیگ کے میچ الریاض ، جدہ اور الدمام میں کھیلے جائیں گے۔