پاکستان میں عربی زبان سے شناسائی نہ ہونے کے باوجود اسلامیاں پاکستان بچوں کو قرآن پاک حفظ کرانے کی کوشش اور خواہش رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے طول وعرض میں ایسا کوئی گاؤں یا قصبہ نہیں جس میں ایک سے زاید حفاظ کرام موجود نہ ہوں۔ حفاظ کرام کی تعداد مسلسل بڑھتی جاتی ہے۔
پاکستان کے انہی ہونہار حفاظ اور قراء میں ایک 10 سالہ خوش الحان قاری محمد ابو بکر بھی شامل ہے جس کی خوبصورت قرات کے چرچے سات سمندر پار تک سنے جا رہے ہیں۔
اپنی خوبصورت آواز کے ذریعے ابوبکر قرات کی شکل میں سامعین کے کانوں میں رس گھول دیتا ہے۔ عربی زبان سے واقف نہ ہونے یا عرب اساتذہ سے کسب فیض نہ کرنے کے باوجود محمد ابو بکر کا بہترین تجوید کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرنا اس کی قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
ننھے حافظ اور قاری محمد ابو بکر کا کہنا ہے کہ ’’میں نے چھ سال کی عمر میں کراچی کے ایک دینی مدرسے میں قرآن پاک حفظ کرنا شروع کیا۔ مجھے عرب دنیا کے معروف قرا جن میں شیخ عبدالباسط، الشحات، الطبلاوی، المنشاوی اور دوسروں کی قرات بہت پسند ہے اور میں انہی جیسا بننا چاہتا تھا۔‘‘
ابو بکر کے والد نے اپنے بچے کو ہوش سمبھالتے ہی قرآن پاک کی تعلیم پر لگا دیا تھا۔ اس طرح ابو بکر کو بہت چھوٹی عمر میں اپنے گھر میں قرآن سے وابستگی والا ماحول مل گیا جس کے آگے چل کر اس کے حفظ اور قرآت کی میں مہارت میں اہم کردارا دا کیا۔
اس کے والد کا کہنا ہے کہ میں اپنے بچے کی اس قابلیت پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے دو سال کی عمر میں ابو بکر کو حافظ اور ایک بہترین قاری بنا دیا۔ ابو بکر کے والد کا کہنا ہے کہ بچہ حفظ قرآن کے مقابلوں میں حصہ لینے والے قاری حضرات کو موبائل فون پر سنتا۔ ابو بکر اب بھی محلے کی مسجد میں ایک قاری کے پاس اپنی قرآت اور حفظ کو مزید بہتر بنانے کے لیے جاتا ہے۔