غزہ :اسرائیلی حملے میں کم سن بیٹے کے سوا پورا خاندان کھودینے والاباحوصلہ فلسطینی باپ

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

اسرائیلی فوج کے غزہ کی پٹی پر تباہ کن حملوں میں پورے پورے خاندان صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں یا پھربھرے پڑے گھر میں سے صرف دو ایک افراد ہی زندہ بچ سکے ہیں۔

ان ہی بدقسمت فلسطینیوں میں 37 سالہ محمد الحدید بھی ہے۔اسرائیلی فوج کے جمعہ کی شب غزہ پر فضائی حملے میں ان کی اہلیہ اور چار بیٹے شہید ہوگئے تھے۔اب صرف ان کا ایک کم سن بیٹا بچا ہے اور وہ اس کے ساتھ دل بہلانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ہفتے کو علی الصبح امدادی کارکنان نے ملبے تلے دبے پانچ ماہ کے اس کم سن کو نکالا تھا۔اس کو اس کی شہید ماں نے اپنی بانہوں میں داب رکھا تھا۔اسرائیلی حملے میں وہ خود تو نہ بچ سکیں مگر اپنے کم سن کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی تھیں۔اس بچے کی ننھی ٹانگ ملبہ میں پھنس جانے سے تین جگہوں سے ٹوٹ چکی ہے اور اس وقت وہ غزہ کے الشفاء اسپتال میں زیرعلاج ہے۔

محمد الحدید کے چار بیٹے 13 سالہ صہیب ، 11سالہ یحییٰ ، آٹھ سالہ عبدالرحمان اور 6 سالہ اسامہ اپنی والدہ 36 سالہ ماہا ابوحاطب کے ساتھ شہید ہوگئے تھے۔

غم سے نڈھال محمد الحدید اب اپنی زخمی کم سن بیٹے عمرکا علاج کرارہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’’ہم بھی بہت جلد ان سے ملنے اور اللہ کی جانب لوٹنے والے ہیں۔‘‘

ان کی غم ناک کہانی کا آغاز جمعہ کو عیدالفطر کے دوسرے روز ہوا تھا۔وہ بتاتے ہیں کہ ان کی اہلیہ عمر اور دوسرے بچّوں کو لے کر غزہ شہر کے نواح میں واقع شعطی مہاجرکیمپ میں اپنے میکے گھر چلی گئی تھیں تاکہ ان کے بچوں اپنے ماموں زاد بھائیوں سے مل کرعید کی خوشیاں منا سکیں۔


الحدید نے بتایا کہ ’’بچّوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ وہ رات ماموں کے گھر ہی میں گزارنا چاہتے ہیں۔‘‘میں اس رات گھرمیں اکیلا ہی سویا تھا۔پھر میں اچانک ہی بمباری کی آواز سن کر جاگ گیا۔‘‘

اس کے تھوڑی دیر کے بعد ہی ایک ہمسائے نےمجھے فون کیا اور بتایا کہ ایک اسرائیلی میزائل نے میرے برادر نسبتی کے مکان کو نشانہ بنایا ہے۔میں تیزی سے دوڑتا بھاگتا وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ مکان تو ملبے کاڈھیر بن چکا ہے اور امدادی کارکنان ملبے تلے دبی لاشوں کو نکال رہے ہیں۔اس فضائی حملے میں میری خواہرنسبتی اور اس کے چار بچّے بھی شہید ہوگئے تھے۔

الحدید نے اسپتال میں اپنے کم سن بیٹے کو بازوؤں میں تھام رکھا تھا۔ انھوں نے ایک عجیب بات بتائی کہ ’’میرے تمام دوسرے بیٹے ماں کا دودھ پیتے رہے ہیں لیکن عمر نے پہلے دن ہی سے ماں کا دودھ نہیں پیا۔ اللہ ہمیں شاید اس حادثے سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کر رہے تھے اور ہمیں تب اس کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔اب میں خود اس کم سن کی پرورش کروں گا۔‘‘

انھوں نے اسرائیلی فوج پر غزہ میں جان بوجھ کر بچّوں کو نشانہ بنانے کا الزام عاید کیا اور کہا کہ وہ کسی پیشگی انتباہ کے بغیر شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

اسرائیلی فوج کے 10 مئی سے غزہ کی پٹی پر جاری حملوں میں 200 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ان میں ایک تہائی تعداد بچوں کی ہے۔انسانی حقوق کی تنظیمیں اسرائیل کے غزہ پر بلا امتیاز فضائی حملوں کی مذمت کرچکی ہیں۔

غزہ میں قائم میزان مرکز برائے انسانی حقوق نے سوموار کو اطلاع دی تھی کہ اسرائیلی فوج کے فضائی حملوں میں 341 اقامتی عمارتیں تباہ ہوچکی ہیں اور وہ رہنے کے قابل نہیں رہی ہیں۔

مقبول خبریں اہم خبریں