یمن میں چار ماہ سے ایرانی حمایت یافتہ شدت پسند حوثی ملیشیا زیرحراست یمنی فیشن ماڈل پرانسانیت سوز مظالم ڈھائے جانے اور جبری اعترافات کے لیے اس پر ہونے والے تشدد کے بعد اس نے خود کشی کی کوشش کی ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم’ہیومن رائٹس واچ‘ نے بدھ کو جاری ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ چار ماہ قبل حراست میں لی گئی فیشن ماڈل انتصار الحمادی پر حوثیوں کے حراستی مرکز میں وحشیانہ تشدد کیا گیا ہےجس کے بعد اس نے خود کشی کی کوشش کی ہے۔
انسانی حقوق گروپ کی رپورٹ کے مطابق انتصار حمادی کو گرفتار کرنے کے بعد حوثی ملیشیا کی ایک نام نہاد فوجی عدالت میں اس کے خلاف جسم فروشی کا بھونڈا الزام عاید کیا گیا ہے اور اسی الزام کے تحت رواں ماہ کی چھ اور نو تاریخ کو اس کے مقدمہ کی سماعت بھی ہوئی۔
صنعا کی سینٹرل جیل کے ایک ذریعے نے بتایا کہ نوجوان فیشن ماڈل نے گذشتہ ہفتے جب اسے جسم فروشی کے مجرموں کےلیے مختص عمارت میں منتقل کرنے کی خبر سنی تو اس نے خود کشی کی کوشش کی تھی۔

العربیہ چینل کے ذریعے کے مطابق الحمادی کو جب جسم فروشی کے مجرموں میں شامل کرنے کا پتا چلا تو وہ بہت زیادہ گھبرا گئی اور اس نے خودکشی کی کوشش کی۔
اس کے خاندان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ انتصار الحمادی خاندان کی واحد کفیل ہے۔ اس کے والد نابینا ہیں اور ایک بھائی جسمانی معذوری کا شکار ہے۔
خیال رہے کہ حوثی ملیشیا نے انتصار الحمادی کو 20 فروری کو اپنی سہیلیوں کے ساتھ گھر کی طرف جاتے ہوئے گرفتار کرلیا تھا۔ اس پرجسم فروشی کا دھندہ چلانے جیسا مذموم الزام عاید کیا گیا اور اس الزام کے تحت اس کے خلاف مقدمہ کی کارروائی شروع کی گئی ہے۔
حمادی کی والد یمنی جب کہ والدہ ایتھوپین ہیں او وہ گذشتہ چار سال سے یمن میں فیشن ماڈلنگ کرتی رہی ہے۔
گذشتہ مئی میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتا تھا کہ انتصار الحمادی کو ایک ایسے کاغذ پر زبردستی دستخط کرائے گئے جس میں اسے منشیات اور جسم فروشی کا دھندہ کرنے کا جبری اعتراف کرایا گیا تھا۔ دستخط کرتے وقت اس کی آنکھوں پرپٹی باندھی گئی تھی۔