ویژن 2030ء کے تحت سعودی افرادی قوت میں خواتین کا تبدیل ہوتا اور اُبھرتا ہوا کردار
سعودی عرب میں باصلاحیت اور تعلیم یافتہ خواتین کی مختلف ملازمتوں پر بھرتی اورانھیں افرادی قوت میں ترجیحی طور پراہم کردار سونپنا ایک داخلی حکمت عملی تصورکیا جاتا ہے تا کہ زیادہ متنوع اور پائیدار معیشت کے اہداف حاصل کیے جاسکیں۔
ویژن 2030ء کے مطابق سعودی معیشت کوتیل کی آمدن پر انحصار کم کرنے اور مستقبل میں شرح نمو میں اضافے کے لیے روزگارکے مزید مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ خواتین کے لیے زیادہ سے زیادہ ملازمتوں کو یقینی بنایا جاسکے۔
عالمی بنک نے فروری میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ سعودی عرب نے خواتین کومختلف شعبوں میں آگے لانے اور روزگار دینے کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں اور اس نے مسلسل دوسرے سال عالمی بنک کی درجہ بندی میں بہتر مقام حاصل کیا تھا اور اس نے عالمی بنک کی ’’خواتین ، کاروبار اور قانون 2021ء‘‘ نامی رپورٹ میں 100 میں 80 پوائنٹس حاصل کیے تھے۔
اس رپورٹ میں دنیا کی 190 معیشتوں میں خواتین کو اقتصادی مواقع مہیا کرنے سے متعلق قوانین ، قواعد وضوابط اور قانونی اصلاحات کا جائزہ لیا گیا تھا اور یہ دیکھا گیا کہ دنیا کے ملکوں نے خواتین کو معاشی ترقی کے مساوی مواقع مہیا کرنے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے ہیں۔
گذشتہ سال عالمی بنک کی اسی عنوان سے رپورٹ میں سعودی عرب نے 100 میں 70۰5 پوائنٹس حاصل کیے تھے۔اس سال اس کے پوائنٹس 80 ہیں اور وہ مشرقِ اوسط اور شمالی افریقا کے خطے میں سرفہرست ہے۔
عالمی بنک کی رپورٹ کے مطابق سعودی مملکت کی یہ کامیابی خواتین سے متعلق قانونی اصلاحات اور قواعد ضوابط کی توثیق کی مظہر ہے۔سعودی عرب نے لیبر مارکیٹ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے روزگار کے تمام شعبوں میں صنفی مساوات کا طے شدہ ہدف حاصل کرلیا ہے۔رپورٹ میں سعودی عرب نے پانچ اشاریوں:حرکت پذیری ،پنشن ، انٹرپری نیورشپ ، کام کی جگہ اور تن خواہ کی جانچ میں سے 100 میں سے 100 اسکور کیاتھا۔
واضح رہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے پیش کردہ ویژن 2030 کے تحت لیبرمارکیٹ میں خواتین کی شمولیت کو 22 فی صد سے بڑھا کر 30 فی صد کیا جائے گا۔اس ویژن کے تحت مملکت میں کاروبار کرنے والے ادارے اور فرمیں سعودی شہریوں کو زیادہ تعداد میں ملازمتیں دینے کے پابند ہیں اور بہت سی ملازمتیں اور اُجرتی کام صرف سعودی شہریوں کے لیے مخصوص کیے جارہے ہیں اور سعودی خواتین کو بھی ملازمتیں دی جارہی ہیں۔ یوں مملکت کی افرادی قوت میں ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد میں اضافہ
امریکا کے بروکنگزانسٹی ٹیوشن کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی افرادی قوت میں 2018ء سے2020 تک برسرروزگار خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔اس میں بتایا گیا ہے کہ سعودی بالغ خواتین میں سے 20 فی صد برسرروزگار تھیں یا 33فی صد کے لگ بھگ ملازمت کی تلاش میں تھیں۔
اس نے مزید کہا ہے کہ سعودی عرب میں اصلاحات کے نتیجے میں خواتین اب ایسے شعبوں میں بھی ملازمتیں حاصل کررہی ہیں،جن کے دروازے پہلے ان پر بند تھے،ان میں دفاع، کان کنی ، تعمیرات اور مینوفیکچرنگ ایسے شعبے شامل ہیں۔
بروکنگز کے جائزے کے عرصے دوسال کے دوران میں سعودی خواتین کی ملازمتوں کی شرح 68 فی صد سے بڑھ کر 76 فی صد ہوگئی تھی۔نجی شعبے میں ملازم خواتین کی شرح میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا تھا۔فوڈ انڈسٹریز میں 40 فی صد جبکہ تعمیرات اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں بالترتیب 9 اور 14 فی صد اضافہ ہوا ہے۔2019 ء کے آغاز سے 2020ء کے اختتام تک سرکاری شعبے میں ملازمت اختیار کرنے والی خواتین کی تعداد میں پانچ فی صد اضافہ ہواتھا۔
سعودی عرب میں ویژن 2030ء کے تحت متعارف کردہ اصلاحات کا یہ نتیجہ ہے کہ اب خواتین کو مختلف شعبوں میں کلیدی ذمہ داریاں سونپی جارہی ہیں۔گذشتہ ہفتے ہی خاتون وکیل ابرارشاکرکو فلِج (ایف ایل آئی جی) فٹ بال کلب کی چیئرپرسن مقرر کیا گیا ہے۔وہ مملکت میں کسی فٹ بال کلب کی قیادت کرنے والی پہلی خاتون ہیں۔
سعودی عرب کے مشرقی صوبہ حفرالباطن میں قائم اس فٹ بال کلب کی مردوخواتین دونوں کی الگ الگ ٹیمیں ہیں۔ابرار شاکر کا انتخاب اس امر کا ثبوت ہے کہ سعودی معاشرے میں خواتین اب ان شعبوں میں بھی آگے آرہی ہیں اور انھیں اہم ذمے داریاں سونپی جارہی ہیں جہاں ماضی میں بالعموم مردوں کی بالادستی یا اجارہ داری رہی ہے۔
اس ضمن میں گذشتہ منگل کوایک اوراہم پیش رفت دیکھنے کو ملی تھی جب ایک خاتون فوجی افسرعبیرالراشد نے سعودی خواتین پرمشتمل حج کی سکیورٹی فورسز کی پہلی میڈیا بریفنگ دی تھی۔
انھوں نے اس مرتبہ 17 سے 22 جولائی تک حج کے لیے سکیورٹی اور ٹریفک کے انتظام کی حکمت عملی سے متعلق بریفنگ دی تھی۔اس مرتبہ کووِڈ-19 کی وباکو پھیلنے سے روکنے کے لیے صرف 60 ہزار عازمین نے فریضہ حج ادا کیا ہے۔قبل ازیں رمضان المبارک کے دوران میں بہت سی خاتون پولیس افسروں نے مکہ مکرمہ میں عمرہ زائرین کے لیے خدمات انجام دی تھیں۔
سعودی عرب کی وزارتِ دفاع نے اس سال کے اوائل میں خواتین کی مسلح افواج میں بھرتی کا عمل شروع کیا تھا اوروہ سعودی عرب کی برّی، فضائی اور بحری افواج کے علاوہ شاہی سعودی تزویراتی میزائل فورس اور مسلح افواج میڈیکل سروسز میں شمولیت اختیار کرسکتی ہیں۔
سعودی عرب میں حالیہ برسوں کے دوران میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے 2016ء میں پیش کردہ ویژن 2030ء کے تحت خواتین کو بااختیار بنانے اور مردوں کے مساوی ترقی کے مواقع مہیا کرنے کے لیے مختلف قانونی اصلاحات اور اقدامات کیے جارہے ہیں۔بہت سی صنعتوں اور کاروباروں میں پہلی مرتبہ خواتین کو ملازمتیں دی گئی ہیں اور مالیاتی اداروں میں ان کا انتظامی عہدوں کے لیے تقررکیا گیا ہے۔
سعودی حکومت نے 2018ء میں خواتین ڈرائیونگ کی اجازت دے دی تھی۔اس کے علاوہ گارڈین شپ کے قوانین میں نرمی یا ترمیم کی ہے۔اس کی وجہ سے اب خواتین خود اپنا کاروبار کرسکتی ہیں اور اپنے کسی قریبی رشتہ دار مرد کے بغیر بھی گھر سے باہرسفر پر جاسکتی ہیں،وراثتی یا بچوں کی پیدائش کے سرٹی فیکیٹ لے سکتی ہیں۔
فوربس کی 2020 کی 10 طاقتور خواتین کی فہرست میں بعض معروف سعودی خواتین کے نام بھی شامل تھے۔ان میں رانیا ناشر سعودی عرب کے ایک کمرشل بنک کی پہلی خاتون چیف ایگزیکٹو افسر(سی ای او) ہیں۔اس وقت وہ سامبا فنانشیل گروپ کی سربراہ ہیں اور یہ اثاثوں کے اعتبار سے مملکت کا تیسرا بڑا بنک ہے۔
فوربس کی فہرست میں دوسرا بڑا نام سارہ السہیمی کا تھا۔ وہ سعودی اسٹاک ایکس چینج کی پہلی خاتون سربراہ ہیں۔ان کے علاوہ ملٹی نیشنل انٹرپرائز اورسرمایہ کار فرم علیان فنانسنگ کمپنی کی سی ای او اور ڈپٹی چیئرپرسن لبنیٰ علیان کا نام بھی اس فہرست میں شامل تھا۔
سعودی عرب نے شہزادی ریما بنت بندر آل سعود کو واشنگٹن میں اپنی سفیر مقرر کیا تھا۔وہ امریکا ایسے اہم ملک میں سعودی عرب کی پہلی خاتون سفیر تھیں۔ ان کے بعد ایک اور خاتون اَمال یحییٰ المعلمی کو ناروے میں سعودی عرب کی سفیر مقررکیا گیا تھا۔
سعودی خواتین سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی آگے بڑھ رہی ہیں۔سعودی عرب کی راکٹ اور سپیس کرافٹ انجینیر مشعل الشمیمری نے امریکا کی نیشنل ایروناٹیکس اور سپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) کے خلائی مشن میں شمولیت اختیار کی ہے۔وہ ناسا میں جانے والی پہلی سعودی خاتون ہیں۔