سعودی عرب میں ملازمت پیشہ خواتین کے لیے زرِتلافی پرٹرانسپورٹ کی ارزاں سہولت
سعودی عرب میں ملازمت پیشہ خواتین کو کام کی جگہوں پرگھر سے جانے اور آنے میں درپیش مشکلات کے خاتمے کے لیے زرتلافی پرٹرانسپورٹ کی سستی سہولت مہیّا کی جارہی ہے جس سے خواتین کی نجی یا سرکاری شعبے میں ملازمتیں اختیار کرنے کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے۔
سعودی عرب کی افرادی قوت میں خواتین کی زیادہ سے زیادہ شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے حکومت مختلف اقدامات کررہی ہے اوراس کی وزارت محنت اور انسانی ترقی نے اس ضمن میں وصول پروگرام متعارف کرایا تھا۔اس کے ذریعے ملازمت پیشہ خواتین اگر ٹیکسی کی سہولت حاصل کرتی ہیں تو انھیں ٹرانسپورٹ کے کل ماہانہ اخراجات ادا نہیں کرنا پڑتے ہیں بلکہ وہ کل رقم میں سے صرف 20 فی صد ادا کرتی ہیں اور باقی 80 فی صد رقم وصول پروگرام سے ادا کی جاتی ہے۔
سعودی عرب میں نجی یاسرکاری شعبے میں ملازمت کرنے والی خواتین کو ٹرانسپورٹ کے کیا مسائل درپیش ہوتے ہیں؟اس حوالے سے ایک ملازمہ خاتون ابتسام العنزی بتاتی ہیں کہ انھیں گھر سے کام کی جگہ پر جانے اوروہاں سے واپس آنے میں سخت مشکلات درپیش ہوتی تھیں،ان میں سب سے بڑا مسئلہ ٹرانسپورٹ کا تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ان کی تن خواہ میں سے ایک بڑی رقم تو ٹرانسپورٹ کے اخراجات پر اٹھ جاتی تھی۔دفتر جانے کے لیے یاتوانھیں ڈرائیوررکھنا پڑتا،وہ پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے سفرکرتیں یا پھرآن لائن ایپ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے سفر کے لیے ٹیکسی کا بندوبست کرتی تھیں اوراس پران کی تن خواہ کا ایک بڑاحصہ اٹھ جاتا تھا۔
مگر جب وہ حکومت کے شروع کردہ وصول پروگرام سے متعارف ہوئیں توان کا ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہی حل ہوگیا۔اس پروگرام کے ذریعے ملازمت پیشہ خواتین کے ٹرانسپورٹ کے کل خرچہ میں سے 80 فی صد کوسرکار کی جانب سے برداشت کیا جاتا ہے۔
اس پروگرام کو سعودی عرب کی وزارت برائے محنت اور سماجی ترقی کے تحت انسانی وسائل ترقی فنڈ (ایچ آرڈی ایف) نے 2017ء میں شروع کیا تھا۔اس پروگرام کے تحت لائسنس یافتہ ٹیکسیوں کے ذریعے خواتین کو ان کے کام کی جگہ سے گھرتک آنے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کی محفوظ خدمت مہیا کی جاتی ہے۔
وصول پروگرام میں رجسٹرخواتین جب سفری ایپ کے ذریعے ایک ٹیکسی بُک کرتی ہیں تو وہ اس ایپ پر ’وصول‘ کا آپشن منتخب کرسکتی ہیں۔اس صورت میں انھیں اصل کرائے یا قیمت میں سے صرف 20 فی صد رقم ادا کرنا پڑتی ہے۔
سعودی وزارت کا یہ پروگرام حکومت کے 2030ء تک افرادی قوت میں خواتین کی تعداد بڑھانے کے لیے اقدامات کا حصہ ہے۔سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے پیش کردہ اس جامع ویژن کے تحت مختلف سماجی اور اقتصادی اصلاحات متعارف کرائی جارہی ہیں۔ان کا مقصد تیل کی آمدن پر انحصار کم کرنا اورمالی خودکفالت کے لیے دوسرے وسائل کو ترقی دینا ہے۔
ایچ آر ڈی ایف کی مینجر نوف القحطانی نے بتایاکہ اب تک نجی شعبے میں کام کرنے والی 90 ہزار سے زیادہ سعودی خواتین اس پروگرام سے استفادہ کرچکی ہیں۔ان کے بہ قول مملکت کی افرادی قوت میں سعودی خواتین کی تعداد میں گذشتہ چارسال میں نمایاں اضافہ ہواہے۔2017ء میں افرادی قوت میں ان کا تناسب 19 فی صد تھا جو 2021ء کی پہلی سہ ماہی میں بڑھ کر31 فی صد ہوچکا تھا۔
’وصول پروگرام‘ کے تحت ٹرانسپورٹ کی خدمات سے استفادہ کرنے والی ایک اور سعودی خاتون نیما العنزی کا کہنا تھا کہ ’’اس سے خواتین کی جاب مارکیٹ میں شمولیت کے لیے حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔یہ ایک بہت آسان ایپ ہے اور سرکاری شعبے میں کام کرنے والی خواتین بھی اس سے استفادہ کرسکتی ہیں۔‘‘