تنزانیہ سے تعلق رکھنے والے مصنف عبدالرزاق گرناہ ادب میں نوبل انعام کے حق دار

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

برطانیہ میں مقیم تنزانیہ سے تعلق رکھنے والے مصنف اور ادیب عبدالرزاق گرناہ(غورناہ) کو ادب میں نوبل انعام کا حق دار قرار دیا گیا ہے۔انھیں یہ ایوارڈ ان کی مختلف براعظموں اور ثقافتوں میں افراد اور معاشروں پر نقل مکانی کے اثرات کے بارے میں بلند پایہ ادبی تصانیف پردیا گیا ہے۔انھوں نے نوآبادیات اور مہاجرت کو اپنے ناولوں میں موضوع بنایا ہے۔

سویڈش اکیڈمی نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’یہ ایوارڈ گرناہ کے استعماریت کے اثرات اور پناہ گزینوں کے انجام کے بارے میں سمجھوتا نہ کرنے اور دردمندانہ انداز میں ان کے مسائل کو اجاگر کرنے کے اعتراف میں دیا گیا ہے۔‘‘

Advertisement

عبدالرزاق گرناہ حال ہی میں برطانیہ کی کینٹ یونیورسٹی میں مابعد نوآبادیاتی ادب کے پروفیسرکی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ انھیں سویڈش اکیڈمی سے جب ادب میں نوبل انعام کے فیصلے سے متعلق فون کال موصول ہوئی تو اس وقت وہ برطانیہ کے جنوب مشرق میں واقع کینٹربری میں اپنے گھر کے باورچی خانے میں تھے۔شروع میں توانھوں نے یہ خیال کیا کہ ’’یہ کوئی شرارت ہے۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ وہ یہ ایوارڈملنے پر’’حیران اورسراپا عجز وانکسار‘‘ ہیں۔ ان کے بہ قول ہجرت ، مسافرت اور دربدری ایسے موضوعات ہیں جن سے ہمیں روزانہ ہی پالا پڑتا ہے۔انھوں نے اپنی ادبی تخلیقات کے لیے ان منفرد موضوعات کا انتخاب کیا۔یہ ایسے مسائل ہیں جو اس وقت اس سے بھی زیادہ سنگین صورت حال اختیار کرچکے ہیں جب وہ خود 1960 کی دہائی میں برطانیہ آئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’’لوگ مر رہے ہیں، دنیا بھر میں لوگوں کو تکالیف پہنچائی جا رہی ہیں۔ہمیں ان معاملات سے انتہائی دردمندی ،احسان مندی اور مہربانی کے طریقے سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔اب نوبل اکیڈمی نے ایسے موضوعات کواجاگر کرنے کا انتخاب کیا ہے جو میرے پورے کام میں موجود ہیں۔ان تمام مسائل سے نمٹنا اور ان کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے۔‘‘

حالاتِ زندگی اور ادبی کام

پروفیسرعبدالرزاق گرناہ 1948ء میں جزیرہ زنجبار میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ جزیرہ اب افریقی ملک تنزانیہ کا حصہ ہے۔وہ 1968 میں نوعمر پناہ گزین کی حیثیت سے برطانیہ منتقل ہو گئے تھے۔ تب وہ اپنے ملک کی حکومت کے عرب مسلم کمیونٹی کے ساتھ ناروا جابرانہ سلوک سے تنگ آ کرنقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے ہجرت کے تجربے کے نقصان اور آزادی دونوں کی تلاش کے ایک طریقے کے طور پر انگلینڈ پہنچنے کے بعد’ٹھوکر کھائی‘ کے عنوان سے ایک تحریر قلم بند کی تھی۔

وہ اب تک دس ناول لکھ چکے ہیں۔ان میں’’روانگی کی یادداشت‘‘، ’’زائرین کا راستہ‘‘ اور’’جنت‘‘ نمایاں ہیں-انھیں 1994ء میں بُکرانعام کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ان کے علاوہ انھوں نے اپنے ناولوں’’سمندر کے کنارے‘‘،’’ترک وطن‘‘ اور’’آفٹرلائیوز‘‘ میں جرمن استعمار کے تحت مشرقی افریقا سے لے کرجدید دور کے انگلستان تک میں بے گھر کیے گئے افراد کے مسائل اور ان جگہوں پر نقل مکانی کے گہرے اثرات کا احاطہ کیا ہے۔

پروفیسرعبدالرزاق گرناہ کی مادری زبان سواحلی ہے لیکن وہ انگریزی زبان میں لکھتے ہیں۔وہ براعظم افریقا میں پیدا ہونے والے چھٹے مصنف ہیں جنھیں ادب میں نوبل انعام سے نوازا گیا ہے،ورنہ تو1901 میں ادب کے اس بیش قدرنوبل انعام کے اجراء کے بعد سے یورپ اور شمالی امریکا سے تعلق رکھنے والے مصنفین ہی اس کے حق دار ٹھہرائے جاتے رہے ہیں۔

1986ء میں ادب کا نوبل انعام جیتنے والے نائجیریا کے مصنف وول سوئینکا نے اپنے براعظم سے تعلق رکھنے والے مصنف کو ادب کا بڑا انعام ملنے کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’مستقل تکلیف میں مبتلا براعظم‘‘ میں ’’فنون لطیفہ اورخاص طورپرادب اچھی طرح سےپھل پھول رہے ہیں اورایک مضبوط پرچم مایوس کن حقائق سے اوپرلہرایا گیا ہے۔‘‘

نوبل کمیٹی برائے ادب کے چیئرمین اینڈرزاولسن نے گرناہ کو’’نوآبادیاتی مصنفین کے بعد دنیا کے سب سے نمایاں مصنفین میں سے ایک‘‘قراردیا ہے۔ان کا کہنا ہے:’’یہ بات اہم ہے کہ گرناہ کی جڑیں زنجبار میں ہیں جو ایک کثیرالجہت جگہ ہے اور عالمگیریت سے بہت پہلے کاسموپولیٹن تھی۔‘‘

اولسن نے کہا کہ ’’ان کا کام ہمیں ایک اورافریقا کی ایک روشن اورانتہائی درست تصویر پیش کرتا ہے جو بہت سے قارئین کے لیے اتنا مشہورنہیں ہے، بحرہند اور اس کے آس پاس کا ایک ساحلی علاقہ جو مختلف حکومتوں اور پرتگالی، ہندوستانی، عرب، جرمن اور برطانوی نوآبادیاتی طاقتوں کے تحت غلامی اور جبر کی بدلتی ہوئی شکلوں سے نشان زد ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ’’گرناہ کے کردارخود کو ثقافتوں کے درمیان خلیج میں پاتے ہیں ... پیچھے رہ جانے والی زندگی اورآنے والی زندگی کے درمیان، نسل پرستی اور تعصب کا مقابلہ کرتے ہوئے، لیکن حقیقت سے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے خود کو سچائی کوخاموش کرنے یا اپنی سوانح عمری کو ازسرنو تشکیل دینے پرمجبوربھی کرتے ہیں۔‘‘

ماہرتعلیم لوکا پرونو نے برٹش کونسل کی ویب سائٹ پرکہا کہ ’’گرناہ کے کام میں ’شناخت مستقل تبدیلی کا معاملہ ہے۔‘ان کے کردارماحول میں ان لوگوں کی مقررہ شناخت کو ختم نہیں کرتے جہاں وہ نقل مکانی کرتے ہیں۔‘‘

پروفیسر گرناہ کے آبائی علاقے زنجبار میں ان کے لیے ادب کے نوبل ایوارڈ کی خبروں کا بڑے جوش وخروش سے خیرمقدم کیا گیا ہے۔وہاں بہت سے لوگوں کو آج بھی عبدالرزاق گرناہ اوران کے اہل خانہ یادہیں۔ یہ اور بات ہے کہ ان میں بہت کم لوگوں نے فی الواقع ان کی کتابیں پڑھی ہیں۔

زنجبار کے مقامی وزیرتعلیم سمیع محمد سعید کا کہناتھا کہ پروفیسر گرناہ کی کتابیں ان کے اسکولوں میں پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے اور وہ مشکل سے ہی ملتی ہیں لیکن زنجبار کے ایک بیٹے نے ان کا سرفخر سے بلند کردیا ہے۔اتفاق سے وزیرتعلیم کی اہلیہ پروفیسر گرناہ کی بھتیجی ہیں۔

انھیں نوبل انعام ملنے پر زنجبار کے بہت سے لوگ خوش ہیں اوراس پراحساس تفاخرمیں مبتلا ہیں۔حالانکہ وہ انھیں ذاتی طورپر نہیں جانتے،البتہ بڑے بوڑھے انھیں جانتے ہیں اور ان سے بخوبی واقف ہیں۔ان میں فرید حمید نامی ایک مقامی مؤرخ نے بتایا کہ ان کے والد نوجوان گرناہ کو قرآن مجید کی تعلیم دیتے رہے تھے۔

ادب کے پروقارنوبل انعام کے ساتھ گولڈ میڈل اور ایک کروڑ سویڈش کرونر(گیارہ لاکھ چالیس ہزار ڈالرسے زیادہ) کی رقم دی جاتی ہے۔ یہ رقم اس انعام کے خالق سویڈش موجد الفریڈ نوبل کے چھوڑے گئے ترکہ میں سے دی جاتی ہے اوران کی وصیت کے مطابق دی جاتی ہے۔ وہ خود 1895 میں انتقال کر گئے تھے۔

گذشتہ سال ادب کا نوبل انعام امریکی شاعرلوئس گلک کو دیا گیا تھا۔ کئی سالوں کے تنازع کے بعد گلک ایک مقبول انتخاب تھے۔2018ء میں جنسی استحصال کے الزامات منظرعام پرآنے کے بعد یہ ایوارڈ ملتوی کر دیا گیا تھا۔ان الزامات نے سویڈش اکیڈمی کو ہلا کر رکھ دیا تھا کیونکہ ادب میں نوبل انعام جیتنے والوں کا انتخاب یہی ادارہ کرتا ہے۔

آسٹریا سے تعلق رکھنے والے مصنف پیٹر ہینڈکے کو 2019ء میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔اس پر بھی بہت واویلا ہوا تھا۔انھوں نے 1990 کی دہائی میں خطہ بلقان میں لڑی گئی جنگوں کے دوران میں سربوں کی بھرپور حمایت کی تھی ۔اس کی وجہ سے انھیں یہ پُروقار انعام دینے پرادیبوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے سخت احتجاج کیا تھا۔

مقبول خبریں اہم خبریں