فیس بُک کی مخبرخاص (وسل بلور)فرانسیس ہاؤگن نے پیر کے روز برطانوی پارلیمنٹ کو بتایا ہے کہ سماجی رابطے کی سب سے بڑی ویب گاہ دنیا بھر میں مزید پرتشدد بدامنی کو ہوا دے گی کیونکہ اس کا الگورتھم انتشار پیدا کرنے والے مواد کی تشہیرہی کے لیے ڈیزائن کیاگیا ہے۔
فیس بُک کی شہری غلط معلومات کی ٹیم کے سابق پروڈکٹ منیجرفرانسیس ہاؤگن نے برطانیہ میں ایک پارلیمانی سلیکٹ کمیٹی کے روبرو یہ بیان دیا ہے۔یہ برطانوی کمیٹی سوشل میڈیا کمپنیوں کوریگولیٹ کرنے کے منصوبے کی جانچ کررہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’’اس سوشل نیٹ ورک نے تحفظ کولاگت گردانا ہے اوراسٹارٹ اپ کے کلچرکو تقدیس کا جامہ پہنایا ہے،جہاں سنگدلی کی حد تک انتشاری مواد کوبہترسمجھاگیا ہے۔ان کے بہ قول یہ معاملہ بلاشبہ ’’ناقابل تردید‘‘حد تک نفرت کوہوادے رہا اورمنافرت کو بدترین بنا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’’ہم دنیا بھرمیں جو واقعات دیکھ رہے ہیں، میانماراورایتھوپیا جیسے معاملات، یہ ابتدائی ابواب ہیں کیونکہ مشغولیت پر مبنی درجہ بندی دو کام کرتی ہے:اول، یہ تفرقہ ڈالنے اورانتشار پھیلانے والے انتہائی مواد کو ترجیح دیتی ہے اور بڑھاتی ہے۔دوم، یہ ایسے ہی مواد پرتوجہ مرکوزکرتی ہے۔
فیس بک نے پارلیمانی کمیٹی میں ہاؤگن کی پیشی کے جواب میں فوری طور پرکوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ ہاؤگن نے اکتوبر کے اوائل میں امریکی سینیٹ کی کامرس کی ذیلی کمیٹی کی سماعت میں بتایا تھا کہ ’’فیس بک نے صارفین کےاسکرول کرتے رہنے کے ایسے طریقے وضع کیے ہیں کہ اگروہ ان کے تحفظ کے نقطہ نظرسے خطرناک بھی ہے تو وہ اسکرولنگ کو جاری رکھیں۔اس طرح اس نے منافع کو لوگوں کے تحفظ پرترجیح دی ہے۔‘‘
انھوں نے کمیٹی میں یہ بھی بتایا کہ انھوں نے وال اسٹریٹ جرنل کی تحقیقات میں اورنوعمرلڑکیوں کےانسٹاگرام کے ضرررساں استعمال سے متعلق دستاویزات فراہم کی تھیں۔وہ سوشل میڈیا کے اس پلیٹ فارم کا موازنہ تمباکو اور پوست جیسے نشہ آورمواد سے کرتی ہیں۔

فیس بک کے چیف ایگزیکٹوآفیسر (سی ای او)مارک زکربرگ نے ہاؤگن کے الزامات کے ردعمل میں جوابی حملہ کرتے ہوئے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا:’’یہ دلیل انتہائی غیر منطقی ہے کہ ہم جان بوجھ کراپنے منافع کی غرض سے ایسے مواد کوآگے بڑھاتے ہیں جولوگوں کےلیے ضرررساں ہے۔‘‘
برطانوی وزیرداخلہ سخت قوانین کی خواہاں
آج کی سماعت سے قبل ہاؤگن نے برطانیہ کی وزیرداخلہ پریتی پٹیل سے ملاقات کی تھی۔مس پریتی صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لیے بڑے ٹیکنالوجی پلیٹ فارمز کے خلاف سخت قانون سازی کی وکالت کرتی ہیں۔ہاؤگن اگلے ہفتے ایک بڑی ٹیک کانفرنس ویب سمٹ اور برسلزمیں یورپی پالیسی سازوں سے خطاب کرنے والی ہیں۔
انھوں نے کچھ نوجوان صارفین کی ذہنی صحت پر انسٹاگرام کے اثرات کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ فیس بک تحفظ کے لیے معمولی سے معمولی منافع بھی قربان کرنے کو تیارنہیں اوراس کا یہ طرزعمل قابل قبول نہیں ہے۔
برطانیہ ایسے قوانین متعارف کرارہاہے جن کے تحت سوشل میڈیا کمپنیاں اگربچوں کے جنسی استحصال سے متعلق غیرقانونی مواد کو ہٹانے یا اس کی تشہیرمحدود کرنے میں ناکام رہتی ہیں توانھیں ان کے کاروبارکا 10 فی صد تک جرمانہ عاید کیا جاسکتا ہے۔
برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ فیس بک جیسے پلیٹ فارمز کو بچوں کو استحصال، جنسی ہراسیت اور فحش مواد کی نمائش سے بچانے کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔
رائٹرزنے دیگرخبررساں تنظیموں کے ساتھ مل کرہاؤگن کی امریکی سکیورٹیزاینڈ ایکسچینج کمیشن اور کانگریس کو جاری کردہ دستاویزات کوملاحظہ کیا ہے۔
اس میں وہ انکشاف کرچکی ہیں کہ فیس بُک اس بات سے آگاہ تھی کہ اس نے اتنے کارکنوں کی خدمات حاصل نہیں کی تھیں جن کا تقررمتعدد ترقی پذیرممالک میں صارفین کی قابل اعتراض پوسٹوں کی شناخت کے لیے ناگزیرہے اور وہ اس مقصد کے لیےمقامی رسوم ورواج سے آگہی کے علاوہ زبان میں کماحقہ مہارت اورعلم دونوں کے حامل ہوں۔