یواے ای کی شام کے ساتھ تجدیدِ سفارت کاری عرب تعلقات کی بحالی کا پیش خیمہ ہوگی؟
اس ہفتے متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ کے دورے نے شام کے مطلق العنان صدر کے لیے ایک صفحہ تبدیل کر دیا ہوگا جس سے مزید عرب ممالک بشارالاسد کے ساتھ دوبارہ سلسلۂ جنبانی شروع کرسکتے ہیں۔
یہ پیش رفت مشرق اوسط اور بالخصوص عرب خطے میں ایک بڑی تبدیلی کی مظہرہوگی کیونکہ شامی صدر بشارالاسد ایک دہائی تک بے دخل رہے ہیں،عرب ممالک نے ان کےمخالفین کی حمایت کی اوران کے بجائے شام تنازع کے مذاکراتی تصفیے کے لیے امریکاکے ساتھ مل کرکام کیا۔شام کی خانہ جنگی نے اس کی نصف آبادی کو بے گھرکر دیا ہے، لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ملکی معیشت زمین بوس ہوچکی ہے۔
منگل کو شام کے دارالحکومت دمشق کے چارگھنٹے کے غیرعلانیہ دورے کے بعد اماراتی وزیرخارجہ نے اردن کا رُخ کیا۔اس ننھےعرب ملک نے بھی ایک دہائی کے بعد شام کے ساتھ چینل دوبارہ کھول دیے ہیں۔
عمان میں شاہی دیوان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ میں شیخ عبداللہ بن زاید آل نہیان نے بدھ کے روزاردن کے شاہ عبداللہ دوم سے ملاقات کی اور دونوں نے’’خطے میں بحران کے سیاسی حل تک پہنچنے کی کوششوں‘‘پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
اردنی وزیرخارجہ ایمن صفدی نے بعد میں سی این این کو بتایا کہ ایسے وقت میں جب شام تنازع کا حل معدوم نظرآتا ہےتوبشارالاسد کی مسلح حزب اختلاف کی برسوں سے میزبانی کرنے والی مملکت کو عملی طور پرکام کرنے اور اپنے قومی مفادات پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔
اردن لاکھوں شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کررہا ہے اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری سمیت شدید معاشی بدحالی کا شکارہے۔ اس نے حال ہی میں شام کے ساتھ اپنی سرحدیں دوبارہ کھول دی ہیں، سرکاری دوروں کا تبادلہ کیا اورعمان اور دمشق کے درمیان پروازیں بھی بحال کردی ہیں۔
اگر شام اور بعض عرب ممالک کے درمیان اس طرح کے روابط باضابطہ مفاہمت کا باعث بنتے ہیں تو یہ پیش رفت شام کی زبوں حال معیشت کے لیےایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوگی کیونکہ شام کو تعمیرِنو میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی بھی ضرورت ہوگی۔
مفاہمت کا مطلب شام میں عربوں کے لیے ایک دھچکا بھی ہوگا جہاں عرب خلیجی ممالک کا اہم حریف ایران برسوں سے اپنی گماشتہ ملیشیاؤں کے ذریعے برسرزمین موجود رہا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ واشنگٹن خطے سے لاتعلقی اختیارکررہا ہے،عراق اورافغانستان سے تمام فوجیوں کو واپس بلا رہا ہے اور چین کی طرف سے بڑھتے ہوئے درپیش تزویراتی چیلنجوں کی طرف اپنی توجہ مرکوزکررہا ہے جبکہ عرب کھلاڑی تنازعات سے دوچارخطے میں اپنا کھیل تیزکر رہے ہیں۔
مشرق اوسط میں مقیم ایک عرب سفارت کار نے ضوابط کے مطابق اپنا نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ہر کوئی سب سے بات کررہا ہے۔ مثال کے طور پرعراق ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کرتا رہا ہے جواس کا علاقائی حریف ہے۔
اب امارات کی جانب سے شام کو گلے لگانا اس بات کا امتحان ہے کہ آیا مضبوط صدر اسد کے ساتھ دوبارہ تعلقات استوارکرنے سے ممکنہ طور پرجنگ زدہ ملک کو کچھ رعایتیں مل سکتی ہیں کیونکہ اس کو گذشتہ برسوں کے دوران میں مختلف پابندیاں اور بائیکاٹ کا سامنا رہا ہے۔
شام کوعربوں کی جھولی یا بہ الفاظ دیگر’عرب محور‘میں واپس لانے سے ایران اورترکی کےاثرورسوخ میں کمی آ سکتی ہے۔بشارالاسد سے معاملہ کاری بظاہرایک خطرہ ہے مگریہ اس لیے موہ لیا جاسکتا ہے کہ اماراتی خطے میں اپنے داؤپیچ آزماناچاہتے ہیں جبکہ اسدی فوج کو جنگ کے بیشترمظالم کا ذمے دار ٹھہرایا گیا ہے۔
یواے ای کے تجزیہ کارامجد طحہٰ کا کہنا ہے کہ ’’اگر ہم مختلف ممالک کے ساتھ امن قائم کرسکتے ہیں تو شام مشرق اوسط میں سب سے اہم ممالک میں سے ایک ہونا چاہیے۔اس کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہیے۔اگرایرانی وہاں موجود ہیں اوراگر روسی وہاں موجود ہیں تو عربوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔‘‘
متحدہ عرب امارات اس وقت اعلیٰ سطح کی خارجہ پالیسی پرعمل پیرا ہے۔وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پرلایا ہے، کئی سال سے جاری سیاسی تعطل، تضحیک آمیزاورعلاقائی تنازعات میں مخالف فریقوں کی حمایت کے بعد قطراور ترکی کو اپنےسفارتی دھارے میں شامل کرنے کے اقدامات کر رہا ہے۔
شام کی حکمران جماعت کے ترجمان نے اماراتی وزیر خارجہ کے دورے کو’’حقیقی پان عرب قدم‘‘ قرار دیا۔اس دورے نے برسوں کے اس وہم وگمان کودور ازکار قراردیا ہے کہ اسد اور ان کی حکومت کو جنگ کے ذریعے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
امارات شام کو مزید امداد مہیا کرنے کے لیے عالمی ادارہ صحت جیسے بین الاقوامی فورمز پر لابنگ کررہا ہے اور وہ اس طرح کی امدادی اپیلوں کو وسعت دے سکتا ہے۔ اگراسے روکنے کے لیے پابندیوں کے استعمال کی دھمکیاں نہ دی گئیں تو متحدہ عرب امارات شامی اماراتی کاروباری اداروں کی حوصلہ افزائی بھی کر سکتا ہے۔
عرب ممالک اب یہ دیکھ رہے ہوں گے کہ امارات جلدبازی سے پہلے تعلقات کی اس بحالی سے کیا مقصد حاصل کرتا ہے؟تجزیہ کار طحہٰ نے کہا کہ شام کو عرب لیگ میں واپس لانے کے لیے عرب ممالک کی لابی کرنے کے لیے اماراتی قیادت میں پہلے ہی کوششیں کی جا رہی ہیں اور انھوں نے اسے عربوں کے چند اعتراضات کے باوجود ایک بڑی کوشش قراردیا ہے۔عرب لیگ کا آیندہ سربراہ اجلاس اگلے سال کے اوائل میں الجزائر میں ہوگا۔اس سے پہلے دمشق ایسے اشارے پیش کرسکتا ہے جو شام میں ایرانی اثر ورسوخ میں کمی کی نشان دہی کرتے ہوں۔
شام کے ایک اور بڑے اتحادی روس نے پہلے ہی ایران کی قیمت پرشام کے بعض علاقوں میں اپنی موجودگی بڑھا دی ہے تاکہ اسرائیل یا امریکاکو تسلی دی جا سکے لیکن اس کے اقدامات شام میں معاملات پر اپنی گرفت بہتر بنانے کے لیے بھی ہوسکتے ہیں۔
لندن میں مقیم شامی صحافی ابراہیم حمیدی کہتے ہیں کہ ’’شام جس کے بارے میں ہم جانتے تھے، وہ ختم ہوچکا ہے۔شام جوعلاقائی کردار ادا کر سکتا ہے وہ ختم ہو چکا ہے۔ شام تباہ ہوچکا ہے اور اپنے ہی مسائل میں الجھا ہواہے۔‘‘
شام کی حزب اختلاف اور واشنگٹن اس نئی پیش رفت کو ناکام کرسکتے ہیں۔ بشارالاسد خود بھی اس کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ وہ یوں کہ وہ یا تو کوئی رعایت دینے میں ناکام رہیں یا ایک دوسرے کے خلاف مختلف اداکاروں کا کردار ادا کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
امریکی پابندیاں بھی اس تمام معاملے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں اور وہ اس بات کی حد مقرر کر سکتی ہیں کہ کوئی ملک کس حد تک جا سکتا ہے اورشام میں سرمایہ کاری کو روکنے کے لیے ان پابندیوں کو ایک ہتھیار کے طور پراستعمال کیا جاسکتا ہے۔
شام میں امریکا کے سابق ایلچی اور نیوامریکا فاؤنڈیشن میں فیلو جوئل ریبرن کی رائے میں ’’شام کے ساتھ تعلقات کو معمول پرلانے کی کوششیں امریکا کی جانب سے بشارالاسد کی بحالی نہ دیکھنے اورخود بشارالاسد کی جانب سے کم سے کم اقدامات کرنے میں عدم رضامندی کی وجہ سے ہمیشہ محدود رہیں گی۔‘‘