ایران کے اسکول نصاب میں اسرائیل کے ’’خاتمے‘‘ پر زوراورامریکا ’’شیطان دشمن‘‘
ایران میں نصابی کتب اوراسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کے حالیہ مطالعے کے مطابق اس کا مواد اسرائیل کے ’’خاتمے‘‘پر زوردیتا ہے اورامریکا کو’’شیطان دشمن‘‘ سمجھتا ہے۔ان کے علاوہ غیرملکیوں کو’’ناقابل اعتماد‘‘قرار دیتا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ فارمانیٹرنگ پیس اینڈ کلچرل ٹالرینس اِن اسکول ایجوکیشن (امپیکٹ سی) نے ایرانی نصاب کے جائزے سے متعلق گذشتہ ماہ ایک تحقیقی رپورٹ شائع کی تھی۔اس سے پتاچلا ہے کہ ایرانی نصاب میں اسرائیل کے خلاف مکمل جنگ پر زوردیا گیا ہے تاوقتیکہ اس کاوجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔
نصاب کے بعض مندرجات کے مطابق اسرائیل کا وجود ایران کی خطے میں بالادستی کی کوششوں میں حائل ہے۔اسرائیل کی تباہی کو ایک مثالی اور حقیقت پسندانہ مقصد دونوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
اس رپورٹ میں2021-2022 کے تعلیمی سال کی 100 سے زیادہ نصابی کتابوں کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق تدریسی مواد میں اسرائیل کی تباہی کو دنیا کی نجات کی طرف ایک قدم کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
ایران کی نصابی کتب میں امریکا کو’’پیغمبروں اور قرآن کا دشمن‘‘ اور ایک بزرگ شیطان قراردیا گیا ہے۔اس میں طلبہ کو’’غیرملکیوں‘‘ پرعدم اعتماد کرنا سکھایا جاتا ہے اور نصاب ’’غیرملکیوں کے خلاف بیان بازی سے لبریزہے‘‘۔
نصابی کتب میں ایک تھریڈ ہے جو طلبہ میں ’’غیر ملکیوں" کے معاملے میں پیرانویا کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اس میں ’’غیرملکیوں کے خلاف‘‘ بیان بازی کی گئی ہے۔ طلبہ کو ایک مشق تفویض کی جاتی ہے جس میں انھیں کہا جاتا ہے کہ وہ اسلامی حکومت کا تختہ الٹنے کے غیر ملکی منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے طریقوں کی حکمت عملی تیارکریں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران کے 1979 میں برپاشدہ اسلامی انقلاب کو’’تمام ممالک کے لیے ایک نمونہ کے طور پرسکھایا جاتا ہے‘‘اور’’عرب حکومتوں کو ناجائزادارے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے‘‘۔
نصاب میں گریڈ 11 کی ایک کتاب ’’عصری ایران کی تاریخ‘‘کے عنوان سے شامل ہے۔اس میں مصر کی قدیم مذہبی سیاسی جماعت (اب کالعدم) الاخوان المسلمون اور اس کے بانی حسن البنا کی تعریف شامل تھی۔
اس نصابی کتاب میں مصر کی سیاسی مذہبی شخصیت حسن البنا اور ایران کے سابق سپریم لیڈرروح اللہ خمینی کو’’نئے دور اور اسلامی بیداری کی موجودہ لہر‘‘ کےنظریہ سازوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔
اس کے صفحہ 251 میں لکھا ہے:حسن البنا نے ’’مغربی تہذیب کو مسترد کردیا تھا اور اسلامی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے قرآن وسنت کو زندہ کیا۔ الاخوان المسلمون بلاشبہ موجودہ دور میں سنیوں کی اسلامی بیداری میں سب سے بڑی اصل فکری تحریک ہے‘‘۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ ’’ایران کے بنیادی نسلی اورقوم پرست تشخص کو نصاب میں پروان چڑھایا جاتا ہے‘‘۔ایرانیوں کوآریائی نسل سے تعلق رکھنے والی قوم کے طور پرپیش کیا جاتا ہے۔
تعلیمی نصاب میں جرمن نازیوں کے مظالم کو اکثرنظرانداز یا پست کیاجاتا ہے جبکہ ان کی کامیابیوں کی تعریف کی جاتی ہے۔یہود کے نازیوں کے ہاتھوں ’’مرگِ انبوہ‘‘ (ہولوکاسٹ) کو نظراندازکردیا گیا ہے۔
رپورٹ میں نشان دہی کی گئی ہے کہ ایرانی نصاب میں فارسی کے سواکسی اور زبان کی تدریس شامل نہیں ہے، اس حقیقت سے قطع نظرکہ قریباً نصف آبادی کی مادری زبان فارسی نہیں ہے۔نصاب میں اقلیتی زبانوں اور ثقافتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی عکاسی ہوتی ہے۔ثقافتی تنوع کو تسلیم ضرورکیا جاتا ہےمگرصرف لوک پرستی کی سطح پر‘‘۔