تہران میں کسریٰ کے ہسپتال میں ایرانی پولیس کی حراست میں وفات پانے والی مہسا کی بستر پر موجود ایک تصویر وائرل ہو گئی ہے جس کے بعد ایرانیوں میں مزید اشتعال پھیل گیا۔ یہ تصویر چند گھنٹوں میں ہی ہزاروں سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پھیل گئی ہے۔
اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مہسا ہسپتال کے بستر پر ہے اور کے سر اور کان پر پٹیاں بندھی ہیں۔ وہ سیدھی لیٹی ہوئی ہے۔ اس کے سر کے بالوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی نے اس کے سر کے بال کھینچے ہیں۔ ایرانی اخلاقی پولیس کی جانب سے تشدد کو ظاہر کرنے کیلئے ایسی تصویر بھی بنا کر سامنے لائی گئی ہے جس میں مہسا کے سیاہ بال کوئی ہاتھ بے دردی سے کھینچ رہا ہے۔
چیخیں اور آہیں
ایرانیوں نے مہسا امینی جس کا اصل نام جینا امینی تھا کے اہل خانہ کی ویڈیوز بھی شیئر کی ہیں۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کوما میں رہنے کے بعد مہسا کی موت کی خبر سنتے ہی چیخیں اور آہیں بلند ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔

مہسا پر تشدد کیخلاف احتجاج کے دوران مظاہرین نے ایرانی حکام پر سنگین الزامات عائد کئے اور کہا برسوں سے ہمارے ملک میں خواتین کے متعلق جابرانہ قوانین نافذ کرکے انہیں قتل کیا جارہا ہے۔ مظاہرین نے کہا آیت اللہ خانہ ای نے ہماری بہن کو مار ڈالا ہے۔ یہ حکومت داعش جیسی ہے۔ مظاہرین نے آمر کی موت کے نعرے بھی لگائے۔
“I want my daughter alive.”
— Masih Alinejad 🏳️ (@AlinejadMasih) September 16, 2022
Mahsa Amini’s grieving mother in hospital in Tehran.
This is the moment that Mahsa Amin’s family were told that the doctors couldn’t save her life.#MahsaWasMurdered by the Islamic Republic’s hijab police in Iran.
pic.twitter.com/CdqI1hRG1P
متعدد سوشل میڈیا صارفین نے ایسی ویڈیوز بھی شیئر کی ہیں جن میں سکیورٹی فورسز مخصوص لباس کی پابندی کے خلاف احتجاج کرنے والی خواتین کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ ان ویڈیوز کو شیئر کرکے بتایا جارہا ہے کہ ایرانی فورسز کے یہ جرائم نئے نہیں ہیں۔
خیال رہے مہسا امینی چند روز قبل ایرانی کردستان کے شہر سقز سے اپنے خاندان کے ساتھ اپنے رشتہ داروں کو ملنے تہران آئی تو منگل کے روز پولیس نے اسے ’غیر مناسب پردہ‘ کرنے پر گرفتار کیا اور دیگر کے ساتھ جیل منتقل کر دیا۔ مہسا نے اپنے بھائی کو کہا تھا کہ اسے ایک گھنٹے میں رہا کردیا جائے گا تاہم ایسا نہ ہوا بلکہ وہ خود ہی جسم کی قید سے رہائی پا گئی۔ ہوا یہ تھا کہ پولیس کی حراست میں وہ کوما میں چلی گئی تھی اور اسے بدھ کے روز مکمل دماغی کوما کی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا، وہ تقریباً مردہ ہو چکی تھی۔

ایرانی حکام نے اعلان کیا کہ ماہا کو اچانک دل کا دورہ پڑا تھا ، تہران پولیس نے جمعہ کے روز بیان دیا کہ پولیس افسران اور گرفتار خاتون کے درمیان "کوئی جسمانی رابطہ نہیں ہوا"۔ لیکن مہسا کے اہل خانہ نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ گرفتاری سے قبل وہ بالکل ٹھیک تھی۔
ٹی وی چینل "تصویر 1500" نے اطلاع دی کہ نوجوان خاتون کے سر پر کسریٰ ہسپتال منتقل کرنے سے پہلے ہی چوٹ لگ چکی تھی۔
ممتاز ایرانی وکیل سعید دہقان نے ٹوئٹر پر امینی کی موت کو ایک "قتل" قرار دیا اور کہا مہسا کے سر میں گولی لگی تھی، جس سے ان کی کھوپڑی ٹوٹ گئی تھی۔
ابراہیم رئیسی کا حکم نامہ
خیال رہے مہسا امینی کی موت سے قبل بھی ایران کی اخلاقی پولیس کے پر تشدد رویے اور قوانین کی سختی پر ایران کے اندر اور باہر بحث ہوتی رہتی ہے۔ گزشتہ برسوں میں ملک میں خواتین کی جانب سے لازمی پردہ کیخلاف کئی مرتبہ مہم چلائی گئی لیکن حکام نے ہر بار درجنوں خواتین کارکنوں کو گرفتار کرکے اس مہم کو دبا دیا۔
مہسا کی موت سے کچھ روز قبل 16 اگست 2022 کو ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے خواتین کیلئے لباس کی پابندی کے قانون کی خلاف ورزی پر سخت سزاؤں کے حکم نامے پر دستخط کئے تھے۔
یہ حکم نامہ بھی 12 جولائی کو ’’یوم حجاب اور عفت‘‘ کے اعلان کے بعد ملک بھر میں درجنوں خواتین کی گرفتاری کے بعد سامنے آیا تھا۔ ان گرفتار ہونے والی خواتین میں اداکارہ سیبیدہ راشنو بھی شامل تھیں۔