اپنی آنکھوں کے سامنے خاندان کو سیلاب میں بہتے دیکھا: سعودی شہری کا انٹرویو
خاندان کو ڈوبنے کے المناک واقعے کی تفصیلات عبدالرحمٰن نے ’’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ کو بتائیں
سعودی عرب میں ’’میسان‘‘ گورنری کے علاقے ’’حداد بن مالک ‘‘ مرکز میں بارش کے باعث آنے والے سیلاب میں ایک خاندان سیلاب میں بہہ گیا ۔ اس خاندان کے رکن ’’ عبد الرحمن‘‘ نے اپنے آ نکھوں کے سامنے اپنے پیاروں کو ڈوبتے دیکھنے کی خوفناک حالت کو بیان کیا ہے۔ ’’ العربیہ ڈاٹ نیٹ‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے عبد الرحمن نے کہا میں نے اپنی والد، والدہ اور دو بہنوں کو ڈوبنے سے بچانے کی بھرپور کوشش کی۔ میں ایک گھنٹے سے زیادہ دیر اپنے گھر والوں کو بچانے کی کوشش کرتا رہا ۔ یاد رہے میسان گورنری طائف سے 155 کلومیٹر دور ہے۔
ابن عبد الرحمن نے بتایا کہ سیلاب بہت طاقتور تھا۔ انہوں نے بتایا میرے والد عبد اللہ السحیلی کی عمر 70 کی دہائی میں تھی۔ بہن عتاب30 کی دہائی میں تھی ۔ والد اور بہن کر جاں بحق ہوگئے۔ والدہ اور میری دوسری بہن بچ گئیں۔
اس المناک واقعے کی تفصیلات میں عبدالرحمٰن نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا میں نے اپنے والد کو الوداع کیا تھا جب وہ گھر سے نکلے۔ رات دس بجے میں اپنی بہن کی مدد طلب کرنے کی کال سن کر حیران رہ گیا۔ بہن نے بتایا کہ خاندان گھر کے قریب سیلاب میں ڈوب رہا ہے۔ اس سے قبل مجھے معلوم تھا کہ اہلخانہ وادیوں کو دیکھنے نکلے تھے اور ان کا یہ دورہ بحفاظت مکمل ہو گیا تھا۔
عبد الرحمن نے بتایا وادیاں دیکھ کر جب گھر والے گھر واپس آئے تو میری بہن عتاب نے اصرار کیا کہ وہ "شناب" وادی کے قریب ندیوں کو دیکھنا چاہتی ہے۔ والد نے کہا ٹھیک ہے ، اسے لے آؤ۔ اس وقت وہ دوبارہ جانے کے لیے نکلے او ر تیز طوفان سے دوچار ہوگئے۔
عبد الرحمن نے بتایا بہن کی کال موصول ہونے کے بعد میں ان کی طرف بھاگا ۔ وہ لمحات انتہائی مشکل اور تکلیف دہ تھے جب میں نے ڈوبنے والی کار کی جگہ تک پہنچنے کے لیے گھر کے آس پاس کے علاقوں میں کسی قسم کی بھی مدد کی تلاش شروع کی۔ حالانکہ مجھے ہلال احمر اور سول ڈیفنس کے لوگ ملے جنہوں نے مجھے سیلاب میں داخل ہونے کی تنبیہ کی۔ لیکن میں نے اپنے گھر والوں کو ڈوبتے ہوئے دیکھا اس لیے میں نے گاڑی کو کھینچنے کی کئی بار کوشش کردی۔ گاڑی کو پانی سے نکالنے کی میری یہ کوشش ایک گھنٹہ سے زیادہ چلتی رہی۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے عبد الرحمن نے کہا میں نے اپنی چھوٹی بہن کو اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے دیکھا جب وہ مدد کے لیے التجا کر رہی تھی۔ میں نے اس کی آواز بھی سنی میں اس وقت مزید انتظار نہیں کر سکتا تھا۔ اس لیے میں نے کچھ رسیاں استعمال کیں اور ان کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال دی۔ بہتے دھار کے زور میں داخل ہوگیا جو تقریباً مجھے بہا لے گیا۔ اس دوران میں کئی مرتبہ گرا لیکن اللہ کی مرضی تھی کہ میں کسی نہ کسی طرح ان تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ میں نے تار کو گاڑی سے لگایا۔ پھر میں نے اسے تھوڑے فاصلے تک کھینچا۔ میرے والد، والدہ، اور دو بہنوں کو باہر لے جایا گیا۔ انہیں ہلال احمر کے حوالے کیا گیا ۔ میں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میری والدہ اور میری چھوٹی بہن زندہ ہیں۔ تاہم میں سمجھ رہا تھا کہ میرے والد اور میری بڑی بہن ڈوب گئی تھی۔
عبد الرحمن نے وضاحت کی کہ جب انہیں القری ہسپتال منتقل کیا گیا تو ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ ان کے والد زندہ ہیں۔ درحقیقت وہ ریکوری روم میں تقریباً ایک گھنٹہ تک رہے لیکن بعد میں وہ اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے ہی موت سے ہمکنار ہوگئے۔
عبد الرحمن نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ان کی والدہ نے بتایا کہ اس کے والد ڈوبنے کے دوران انہیں شہادت کا ورد کرنے کے لیے کہہ رہے تھے۔ انھوں نے عبدالرحمٰن سے مدد لینے اور اس تک پہنچنے کی کوشش کرنے کو بھی کہا۔