جوہری ایران

امریکی فوج نے ایران کی جوہری تنصیبات کے لیے تیار’عظیم الجثہ‘بم کی تصاویرکیوں ہٹا دیں؟

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

ایران کے جوہری پروگرام پر کشیدگی میں اضافے کے بعد امریکی فوج نے رواں ماہ ایک طاقتور ’عظیم الجثہ‘ بم کی تصاویر پوسٹ کی تھیں جو 60 میٹر تک زمین کی گہرائی میں اور زیرزمین یورینیم کی تنصیبات کو تباہ کرنے کی صلاحیت کا حامل بتایا جاتا ہے۔

امریکی فضائیہ نے 2 مئی کو اس بڑے ہتھیار جی بی یو-57 کی نایاب تصاویر جاری کی تھیں، جسے ’’عظیم الجثہ دھانسو ہتھیار‘‘(میسیو آرڈننس پینیٹریٹر) کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن فضائیہ ان تصاویر کوپھر ہٹا دیا تھا-بظاہر یہ وجہ بتائی گئی تھی کہ ان تصاویر میں اس تباہ کن ہتھیار کی ساخت، مار اور تباہی کے بارے میں حساس تفصیل سامنے آئی ہے۔

Advertisement

دریں اثناء امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی)نے خبر دی ہے کہ ایران ایک جوہری تنصیب کی تعمیر میں مسلسل پیش رفت کر رہا ہے جو ممکنہ طور پر جی بی یو-57 کے حملے کی زد میں نہیں آسکتی حالانکہ زیر زمین بنکروں کو نشانہ بنانے کے لیے اس بڑے بم کو امریکی فوج کا آخری ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔

تباہ کن ’بموں کی ماں‘ کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

امریکانے 2000ء کی دہائی میں تباہ کن عظیم الجثہ بم ’پینیٹریٹر‘تیار کیا تھا اورتب اسے ’بموں کی ماں‘ قراردیا گیا تھا۔اس وقت ایران نے اپنی جوہری تنصیبات کو زیرزمین تعمیر کرنے اور انھیں ممکنہ فضائی حملوں سے محفوظ بنانے کا فیصلہ کیا تھا جس سے اس کے جوہری پروگرام کے بارے میں خدشات میں اضافہ ہوا تھا۔

امریکی فضائیہ نے میسوری میں وائٹ مین ایئر فورس بیس کے فیس بک پیج پران بموں کی تصاویر پوسٹ کی تھیں۔ اس اڈے پر بی-2 اسٹیلتھ بمبار طیاروں کا بیڑا موجود ہے، امریکی فضائی کا یہ واحد طیارہ ہے جس میں اس بڑے بم کو نصب کیا جا سکتا ہے۔

فوجی اڈے نے ان تصاویر کے ساتھ کیپشن میں کہا تھاکہ اسے دوعظیم الجثہ بم ملے ہیں تاکہ وہاں موجود گولہ بارود کا اسکواڈرن ان کی کارکردگی کی جانچ کرسکے۔

یہ پہلا موقع نہیں جب امریکی فضائیہ نے اس بم کی تصاویراورویڈیوز شائع کی ہیں۔ اس سے پہلے سنہ 2019 میں امریکی فوج نے ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں ایک بی ٹو بمبار کو دو بم گراتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ ایئرفورس نے اس کے بارے میں تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا کہ اس نے تازہ تصاویر کیوں پوسٹ کیں اور پھر انھیں کیوں ہٹا دیا ہے؟

ان تصاویر سے کیا پتاچلا؟

تازہ ترین تصاویر سے پتاچلا ہے کہ ان بموں کا وزن 12،300 کلوگرام (27،125 پاؤنڈ) ہے۔ اوپن سورس انٹیلی جنس فرم جینز میں ہتھیاروں کے ایک سینیر تجزیہ کار راہول اودوشی نے کہا کہ اس بم میں اے ایف ایکس -757 – ایک معیاری دھماکا خیز مواد – اور پی بی ایکس این -114 کا مرکب بھی شامل ہے۔یہ نسبتاً نیا دھماکا خیز مرکب ہے۔

بم کا وزن ظاہر کرتا ہے کہ اس کا زیادہ تر حصہ اس کے اسٹیل کے موٹے خول (فریم) کی وجہ سے ہے جو اسے پھٹنے سے پہلے کنکریٹ اور مٹی میں نیچے تک دھنسنےکی طاقت دیتا ہے۔تاہم یہ واضح نہیں کہ اس ہتھیار کے اصل اثرات کیا ہوں گے؟

انٹرنیٹ نیوزسائٹ وار زون نے سب سے پہلے ان تصاویر کی اشاعت کی اطلاع دی۔اے پی نے وائٹ مین ایئرفورس بیس اور ایئر فورس کی گلوبل اسٹرائیک کمانڈ سے ان تصاویر کے بارے میں پوچھ تاچھ کے لیے رابطہ کیا تو ایک دن کے اندر ہی فیس بک پوسٹ انھیں غائب کردیا گیا۔

ادوشی نے کہا کہ فضائیہ نے ممکنہ طور پر انھیں ہٹادیا ہے کیونکہ ان میں بموں کے بارے میں بہت زیادہ اعداد و شمار کا انکشاف کیا تھا۔ بغیر کسی تبصرہ (یا) جواز کے انٹرنیٹ سے فوری طور پر ہٹانے کا مطلب یہ ہے کہ ممکنہ کوتاہی ہو سکتی ہے۔

بم ایران کی جوہری تنصیبات کو ممکنہ طور پر نشانہ بنانے میں کیا کردار ادا کرے گا؟

اے پی نے پیر کو یہ خبر دی کہ پلینٹ لیبز پی بی سی کی سیٹلائٹ تصاویر سے پتا چلتا ہے کہ تہران وسطی ایران میں نطنز جوہری سائٹ کے قریب پہاڑ میں سرنگیں کھود رہا ہے۔ ماہرین اور اے پی کے تجزیے کے مطابق اس مقام پر کھدائی کے ٹیلوں سے پتا چلتا ہے کہ یہ جوہری تنصیب زیرزمین 80 میٹر (260 فٹ) اور 100 میٹر (328 فٹ) کے درمیان ہوسکتی ہے۔

ماہرین کے مطابق تعمیراتی منصوبے کے حجم سے ظاہرہوتا ہے کہ ایران ممکنہ طور پر زیرِ زمین تنصیب کو یورینیم کی افزودگی کے لیے بھی استعمال کر سکے گا نہ کہ صرف سینٹری فیوجز بنانے کے لیے۔ ٹیوب کی شکل کے یہ سینٹری فیوجزدرجنوں مشینوں کے بڑے چشموں میں ترتیب دیے گئے ہیں، یورینیم گیس کو افزودہ کرنے کے لیے تیزی سے گھماتے ہیں۔اضافی مشینیں ایران کو پہاڑ کی حفاظت کے تحت تیزی سے یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت دیں گی۔

یہ جی بی یو -57 کے لیے ایک مسئلہ ہوسکتا ہے: بم کی صلاحیتوں کو پہلے بیان کرتے ہوئے ، فضائیہ نے کہا ہے کہ یہ دھماکا کرنے سے پہلے 60 میٹر (200 فٹ) تک زمین اور سیمنٹ کو پھاڑ سکتا ہے۔

کیا امریکااب بھی بم گرانے کی کوشش کر سکتا ہے؟

امریکی حکام نے اس جگہ کی تباہی یقینی بنانے کے لیے لگاتار دو ایسے بموں کے استعمال پر تبادلہ خیال کیا ہےلیکن اس کے باوجود، نطنز سرنگوں کی نئی گہرائی ممکنہ طور پر ایک سنگین چیلنج پیش کرتی ہے۔

کسی بھی ممکنہ امریکی فوجی حملے کومزید پیچیدہ بنانے والی بات یہ ہے کہ بی -2 دسمبر سے گراؤنڈ ہے جب ہنگامی لینڈنگ کے بعدایک طیارے میں آگ لگ گئی تھی۔ امریکی فضائیہ کی گلوبل اسٹرائیک کمانڈ کے ترجمان کرنل بروس ای وڈال کا کہنا ہے کہ اگر آپریشنل ضرورت پڑی تو امریکا اب بھی طیارے کو اڑا سکتا ہے۔

مقبول خبریں اہم خبریں