شام کے کیمپوں میں شادی کا شکار داعش کی خواتین کی زندگی کیسی ہے ؟
ہم جانوروں کی طرح رہتے ہیں
دہشت گرد تنظیم داعش کے خاتمے اور شام اور عراق میں اس پر فتح کے اعلان کے برسوں بعد، ان کے خاندان اور پیاروں کے کیمپ اب بھی دونوں ممالک کے درمیان موجود ہیں، اگرچہ ان علاقوں میں حالات کی سنگینی کے بارے میں بین الاقوامی انتباہات جاری کیے جاتے ہیں۔
شمال مشرقی شام کے "روج" کیمپ میں، اقوام متحدہ کے خیموں میں رہنے والی خواتین اور مائیں اپنی روزمرہ کی زندگی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ان جیسے لوگوں کی زندگی کا کوئی مقصد نہیں ہے لیکن وہ اب بھی بہتر مستقبل کا انتظار کر رہی ہیں۔
"عجیب شادی"
اخبار "الشرق الاوسط" کے مطابق، ان سب کی کہانیاں کم وبیش ایک سی ہیں۔ انہیں تنظیم کے عناصر کی جانب سے انٹرنیٹ کے ذریعے پھانسا گیا ، اس دھوکے کے بعد وہ ایک "عجیب شادی" کا شکار ہوئیں، اور بالآخر ان کے پاس داعش میں شامل ہونے اور نتائج کو برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
ذرائع کے مطابق ان کیمپوں میں خواتین کی اکثریت کو پینے کا صاف پانی جیسی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے اور ناقص حفظان صحت، طبی دیکھ بھال کے علاوہ، کونسلنگ کی کمی، تعلیم کی کمی اور غذائیت کی کمی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے مناسب رقم نہیں ملتی، اور وہ بند دیواروں اور نگران کیمروں کے اندر رہتی ہیں۔
ان میں سے تقریباً سب ہی نے یہ بتایا کہ انہیں اپنے آبائی ملکوں میں واپس جانے سے روکنے کی سب سے اہم وجہ متعدد قومیتوں کے شام میں پیدا ہونے والے بچوں کی موجودگی ہے۔
بہت سے خواتین نے کہا کہ اب ان کے دن ایک جیسے ہوگئے ہیں، اور ایسا لگتا ہے کہ وہ برسوں سے کھوئی ہوئی ہیں۔
بعض خواتین جو برسوں سے کیمپ میں رہ رہی ہیں، ان کے مستقبل کے بارے میں کوئی علم نہیں، جس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے۔
کام اور روزگار سے متعلق، کچھ خواتین نے کہا کہ ان کے خواب تقریباً ٹوٹ چکے ہیں، اور اسی وجہ سے انہوں نے کچھ مختلف پیشوں کا سہارا لیا، اور ایک بالکل مختلف سمت میں قسمت آزما رہی ہیں ، اس امید پر کہ شاید یہ انہیں کھوئے ہوئے خوابوں کی طرف واپس لے آئے۔
ان میں سے کچھ نے کہا کہ وہ ان کیمپوں میں جانوروں سی زندگی گزار رہی ہیں۔
ان میں سے ایک نے کہا کہ اس کی موجودہ زندگی کا سابقہ زندگی سے موازنہ کرنے کی تمام کوششیں بیکار ہیں، "یہ ایسی زندگی نہیں ہےکہ اس کا موازنہ بھی میری پہلے کی زندگی سے کیا جائے۔"
صورتحال بہت خطرناک ہے
کیمپ کی نگرانی کرنے والے شمالی اور مشرقی شام کی انتظامیہ کے دو سرکردہ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ الہول اور روج کیمپوں میں مقیم شہریوں کی حکومتوں کا ردعمل اس معاملے میں بہت سست ہے۔
جبکہ ان کیمپوں میں داعش کے ارکان اور عسکریت پسندوں کے اہل خانہ اور بچوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کیمپوں کو ختم کرنے میں برسوں اور شاید دہائیاں لگ سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ الحسکہ میں قائم الہول کیمپ کے نگرانوں کی جانب سے بار بار تشدد میں اضافے کی تنبیہ کی جاتی ہے، جو 150 سے زائد قتل کے ریکارڈ کے بعد غیر معمولی سطح پر پہنچ گئی ہے۔
اس کیمپ میں ہزاروں بے گھر افراد مقیم ہیں، جن میں سے صرف کچھ کا تعلق داعش کے خاندانوں سے ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ روج کیمپ الحسکہ گورنری میں المالکیہ قصبے "دیرک" کے دیہی علاقوں میں واقع ہے اور اس میں تقریباً 600 خاندان آباد اور تقریباً 2500 افراد رہائش پذیر ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
اس کیمپ میں عراقی پناہ گزین اور بے گھر شامی بھی موجود ہیں، ان جنگجوؤں کے غیر ملکی خاندانوں کے علاوہ جو مغربی ممالک اور عرب قومیتوں پر مشتمل داعش کی صفوں میں شامل ہوئے تھے۔