مسلمان ڈیڑھ ہزار سال سے اسلام کےتیسرےرکن فریضہ حج کی ادائی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ماضی میں حج کا سفر اور اس کے دوران ہونے حاجیوں کے کھانے پینے کےامور میں انہیں غیرمعمولی مشقت کا سامنا کرنا پڑتا۔ روایتی طریقوں سے لکڑی کی آگ جلا کر کھانا پکایا جاتا۔ مگر اب بہت کچھ بدل گیا ہے۔ اب حجاج کرام کو فریضہ حج کےدوران یہ سب کچھ کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ آج حجاج کرام کواعلیٰ معیار کی تمام سہولیات میسر ہیں۔
سراج قصاص ایک بزرگ حاجی ہیں۔ انہوں نے حجاج کرام سے متعلق بہت سے قصے کہانیاں سن رکھی ہیں۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے انہوں نےبتایا کہ منیٰ میں حجاج کرام کیسے کھانا بنات تھے۔
انہوں نے بتایا کہ حجاج کرام حسب توفیق منیٰ کی طرف روانہ ہوتے وقت اپنے ساتھ کھانا پکانے اور کھانے کے برتن اور لکڑیاں ساتھ لے کرجاتے۔ ان برتوں میں کھانے کی دیگیں اور دیگر ضروری برتن، سامان اور پکانے کی خشک اشیا شامل ہوتیں۔
منیٰ روانگی سے قبل حجاج کرام برتن، لکڑیاں اور کوئلوں کے ٹکڑے بنڈلوں میں باندھ دیتے۔
سراج قصاص نے بتایا کہ باورچی خانے میں دھوئیں کو جمع ہونے بچنے کے لیےکھانا کھلے مقامات پر تیار کیا جاتا۔
قصاص نے مزید کہا کہ لکڑی اور کوئلہ جلانے اور حجاج کا کھانا تیار کرنے کا تجربہ رکھنے والے افراد، چاہے ناشتہ ہو یا دوپہر یا رات کا کھانا ہو۔ ہر روز طلوع فجر سے شروع ہوتا اور شام دس بجے تک جاری رہا۔ جس کے بعد باورچی خانہ بند اور کوئلوں کو بجھا دیا گیا ، تاکہ اگلے دن انہیں دوبارہ کام میں لایا جا سکے۔
انہوں نے مزید کہاکہ نئے اور جدید ترین کیمپوں کے قیام کے بعد لکڑی کے مدد سےکھانا پکانا ترک کر دیا گیا۔ اور آگ جلانے کے لیے مٹی کے تیل کا استعمال کیا جانے لگا۔

اب حجاج کرام ایک قدم اور آگے بڑھ گئے۔ انہیں خود سے کھانا پکانے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی کیونکہ سنہ 1435ھ سے سعودی حکومت نے حجاج کرام کو تیار شدہ کھانا فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کرر کھا ہے۔
اسی سیاق میں اس بار حج سیزن پر78 کیٹرنگ کمپنیاں حجاج کرام کو کھانا فراہم کررہی ہیں۔ یہ سروس حج کے ایام کے آغاز سے اختتام تک ہے اور حجاج کرام کو اعلیٰ معیار کا تین وقت کا کھانا مہیا کیا جاتا ہے۔ کمپنیوں کی طرف سے حج سیزن پر بارہ لاکھ کھانے تیار کیے گئے ہیں۔