
افریقی تارکین وطن خستہ حال یمنی معشیت پرنیا بوجھ
روزانہ ڈیڑھ سے 200 افراد کی یمن منتقلی
العربیہ ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق یو این ہائی کمیشن برائے افریقی پناہ گزین کے مقامی عہدیدار نفيد حسين نے صنعاء میں نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا ہے کہ یمن کی معیشت پہلے ہی دِگرگوں ہے۔ افریقی ملکوں سے لاکھوں کی تعداد میں صنعاء پہنچنے والے مہاجرین یمنی معیشت پرایک بھاری بوجھ ہے۔ پناہ گزینوں کی فلاح و بہبود کے لیے عالمی برادری کی امداد اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے۔ مہاجرین کی آبادکاری، صحت، تعلیم، روزگار اور دیگر خدمات کا بوجھ بھی یمن کو پورا کرنا پڑ رہا ہے۔
قبل ازیں یمنی محکمہ داخلہ نے بتایا کہ افریقی ملکوں بالخصوص صومالیہ، مالی اور موریتانیہ سے نقل مکانی کر کے صنعاء آنے والے افراد کی تعداد 20 لاکھ سے متجاوز ہے۔ صومالیہ میں خانہ جنگی سے آغاز سے روزانہ 160 سے 200 افراد نقل مکانی کرکے صنعاء پہنچ رہے ہیں۔ مشرقی افریقی ملکوں اریٹریا، ایتھوپیا اور صومالیہ سے بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد کو یمنی معیشت پرایک بھاری بوجھ قراردیتے ہوئے عالمی برادری سے مدد کی درخواست کی تھی لیکن اس کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوا۔ گزشتہ چند برسوں سے یمنی حکومت نے پناہ گزینوں کو کیمپوں تک محدود رکھنے کی کوشش کی لیکن اس میں ناکامی پر بڑی تعداد صنعاء اور دوسرے شہروں میں آباد ہو رہی ہے۔
تقریباً پانچ ارب ڈالر امداد درکار
اقتصادی ماہرین کے مطابق یمنی حکومت کو افریقی مہاجرین کی آبادکاری، صحت، تعلیم، روزگار، مواصلات، پانی اور دیگر سہولیات پر فی کس 23 ہزار ڈالر سالانہ خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ بیس لاکھ آبادکاروں کے لیے یہ رقم سالانہ چار ارب ساٹھ کروڑ ڈالر سے زیادہ ہو جاتی ہے۔
افریقی پناہ گزینوں کے امور کے ماہر تجزیہ نگار ناجی مرشد نے العربیہ کو بتایا کہ بیشتر پناہ گزین یمن اور افریقی ملکوں کے درمیان بحر احمر اور بحر عرب کے راستے دخل ہوتے ہیں کیونکہ ان ملکوں کے ساتھ یمن کی 2400 کلومیٹر لمبی سمندری حدود افریقی ملکوں کے باشندوں کو یمن داخلے کا راستہ فراہم کرتی ہے۔