فرانسیسی ریڈیو "آر ایف آئی" نے بدھ کے روز اطلاع دی ہے کہ "شامی جنگجو" کی ایک بڑی تعداد غیر رجسٹرڈ پروازوں کے ذریعہ لیبیا پہنچائی گئی ہے۔ ریڈیو رپورٹ میں ترکی کی طرف سے لیبیا کی قومی وفاق حکومت کی مدد کے لیے لائی گئی افرادی قوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انقرہ نواز شامی جنگجوؤں کو لے جانے والے 4 طیارے جمعہ اور اتوار کے روز معیتیقہ ہوائی اڈے پر اترے تھے۔
ریڈیو رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ترکی کے ذریعہ لیبیا بھیجے گئے شامیوں کی لیبیا میں موجودگی کے بارے میں اطلاعات تواتر کے ساتھ آ رہی ہیں۔ میڈیا میں ایسی کئی ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں جن میں شامی جنگجوئوں کو لیبیا میں لڑئی میں دیکھا جا سکتا ہے۔
"آر ایف آئی" نے بتایا کہ لیبیا ایئرلائنز کی کمپنی "افریقیہ ایئر لائنز" اور عبدالحکیم بلحاج کی ملکیتی "اجنحا" کی پروازوں کے ذریعے ترکی میں مقیم جنگجوؤں کو انقرہ سے طرابلس منتقل کیا گیا۔ ترکی کی طرف سے اس کمک کی فراہمی کا مقصد لیبیا کی قومی وفاق حکومت کی مدد کرنا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ السراج حکومت نے لیبیا میں شامی جنگجوؤں کی موجودگی کی تردید کرتے ہوئے جنگجوئوں کو ویڈیوز کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے جن ویڈٰیو کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ لیبیا میں موجود شامی جنگجوئوں کی ہیں تو وہ شام کے شہر الرقہ میں فلمائی گئی ہیں۔ مگر لیبیا میں موجود سماجی کارکنوں نے السراج حکومت کے دعوے مسترد کردیے ہیں اور ساتھ ہی ان ویڈیوز کے تیاری کے مقامات کی دستاویزی تصاویر شائع کی ہیں۔ یہ تصاویر اور ویڈیوز طرابلس سے 10 کلومیٹر دور صلاح الدین علاقے کے التکبالی کے مقام پر بنائی گئیں۔
دریں اثنا "سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس" کے ڈائریکٹر رامی عبد الرحمن نے فرانسیسی ریڈیو کو ایک بیان دیتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ شام کے 500 جنگجو لیبیا کی سرزمین پر اتارے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ترکی میں موجود دیگر افراد دارالحکومت طرابلس میں منتقلی کے منتظر ہیں۔
کیا ترکی پیچھے ہٹ سکتا ہے؟
درایں اثناء ترکی کے نائب صدر فواد اوقطائی نے بدھ کے روز کہا تھا کہ اگر لیبیا کی نیشنل آرمی طرابلس کی طرف اپنی پیش قدمی روک دیتی ہے توانقرہ لیبیا میں فوج بھیجنے سے گریز کرسکتا ہے۔
ترک پارلیمنٹ آج جمعرات کے روز لیبیا میں فائز السراج کی سربراہی میں قائم قومی وفاق حکومت کی درخواست پر طرابلس کی فوجی مدد کے بل پر رائے شماری کرے گی۔
خبر رساں ادارے رائیٹرز نے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے کہا ہے کہ ترکی اقوام متحدہ کی پابندی کے باوجود پہلے ہی قومی وفاق حکومت کو فوجی سامان بھیج چکا ہے۔ ترکی کا کہنا ہے ک انقرہ طرابلس کی فوجی مدد جاری رکھے گا۔