سعودی عرب کے ایک اعلیٰ عہدہ دار نے کہا ہے کہ مملکت سے امریکا نے بغداد میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی پر فضائی حملے کے وقت کوئی مشاورت نہیں کی تھی۔
اس عہدہ دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’خطے میں تیزی سے رونماہونے والی پیش رفت کے پیش نظر مملکت کشیدگی کو بڑھاوا دینے والے تمام اقدامات کی روک تھام کے لیے ضبط وتحمل پر زوردیتی ہے کیونکہ اس کشیدگی کے سنگین مضمرات ہوسکتے ہیں۔‘‘
سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے بھی فریقین سے ضبط وتحمل سے کام لینے کا کہا ہے۔سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ہفتے کے روز عراقی صدر برہم صالح سے ٹیلی فون پر بات چیت میں کشیدگی کم کرنے کے لیے اقدامات کی ضرورت پر زوردیا تھا۔
سعودی عرب کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے الگ سے عراق کے نگران وزیراعظم عادل عبدالمہدی سے فون پر تازہ صورت حال پر بات چیت کی ہے اور کہا کہ کشیدگی کم کرنے کے لیے کوششیں کی جانی چاہییں۔
سعودی ولی عہد نے اپنے چھوٹے بھائی اورنائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان کو آیندہ چند روز میں واشنگٹن اور لندن جانے کی ہدایت کی ہے۔پان عرب اخبار الشرق الاوسط کی رپورٹ کے مطابق شہزادہ خالد وائٹ ہاؤس اور پینٹاگان کے حکام سے ایران اور امریکا کے درمیان پیدا ہونے والی تازہ کیشدگی کے بارے میں بات چیت کریں گے۔
گذشتہ جمعہ کو علی الصباح بغداد میں ایک ڈرون حملے میں ایران کی سپاہِ پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد واشنگٹن اور تہران کے درمیان جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔مشرق اوسط کی صورت حال ڈرامائی طور پر یکسر تبدیل ہوگئی ہے اور جنگ کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر مسلح ملیشیاؤں کے حملے کے بعد جنرل قاسم سلیمانی پر ڈرون حملے کا حکم دیا تھا۔ انھوں نے اب ایران کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے امریکی اہلکاروں یا اثاثوں پر حملوں کی کوشش کی تو امریکا اس کو’’بہت تیزی سے اور بہت سخت‘‘ انداز میں نشانہ بنائے گا۔
ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے اور پاسداران انقلاب کے کمانڈروں کا کہنا ہے کہ وہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے احکامات کے منتظر ہیں۔تجزیہ کاروں کے بہ قول امریکا کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی ایران کے انتقامی حملوں کا ہدف بن سکتے ہیں اور اس کی آلہ کار تنظیمیں خلیج عرب میں تیل اور مال بردار بحری جہازوں کو اپنے حملوں میں ہدف بنا سکتی ہیں۔