ترکی نے شام سے تعلق رکھنے والے ساڑھے چھے سو باغی جنگجوؤں کو لیبیا میں منتقل کردیا ہے،مزید ساڑھے تیرہ سو جنگجو ترکی پہنچ چکے ہیں اور انھیں وہاں سے آیندہ دنوں میں لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں منتقل کیا جائے گا۔
شامی باغیوں کی لیبیا میں وزیراعظم فایزالسراج کے زیر قیادت قومی اتحاد کی حکومت (جی این اے) کی مدد و حمایت میں کمک کے طور پر تعیناتی کی اطلاع برطانوی اخبار گارجین نے ایک رپورٹ میں دی ہے۔اخبار نے لکھا ہے کہ ترکی نے ابتدا میں شامی قومی فوج ( سابق جیش الحر) سے تعلق رکھنے والے تین سو جنگجوؤں کو طرابلس منتقل کیا تھا۔
یہ شامی جنگجو 24 دسمبر کو حوار کلیس فوجی سرحد سے ترکی کے سرحدی علاقے میں داخل ہوئے تھے۔ ان کے بعد ساڑھے تین سو جنگجوؤں پر مشتمل دوسرا دستہ 29 دسمبر کو ترکی پہنچا تھا۔
قبل ازیں اسی ماہ العربیہ کے ذرائع نے بتایا تھا کہ ترکی نے اپنے انٹیلی جنس ایجنٹوں کو بھی غیرملکی جنگجوؤں کے ساتھ لیبیا میں تعیناتی کے لیے بھیجا ہے۔ نیز ترکی نے اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ لیبیا کی قومی اتحاد کی حکومت کو رات میں دیکھنے کے لیے استعمال ہونے والے آلات اور دھماکا خیز اور بارودی سرنگوں کا سراغ لگانے والے ڈیٹکٹر مہیّا کیے ہیں۔یہ تمام فوجی سازوسامان اور آلات ترک فوج کے یونٹوں کی لیبیا میں تعیناتی کی تیاریوں کے ضمن میں مہیّا کیے گئے ہیں۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن وزیراعظم فایزالسراج کے زیرِ قیادت جی این اے حکومت کی حمایت میں اپنے فوجی یونٹوں کی لیبیا میں تعیناتی کا حکم دے چکے ہیں۔ ترکی کی پارلیمان نے گذشتہ ماہ ان فوجیوں کی لیبیا میں تعیناتی کی منظوری دی تھی۔
جی این اے کی فورسز لیبیا کے مشرقی شہر بنغازی سے تعلق رکھنے والے جنرل خلیفہ حفتر کے زیر قیادت لیبی قومی فوج (ایل این اے) کے خلاف نبرد آزما ہیں۔تاہم اس وقت متحارب فریقوں کے درمیان عارضی جنگ بندی جاری ہے اور ان کے درمیان ماسکو میں اسی ہفتے مذاکرات کے بعد مستقل جنگ بندی کے لیے کوئی سمجھوتا نہیں طے پاسکا ہے۔
واضح رہے کہ خلیفہ حفتر کے زیر کمان لیبی قومی فوج اپریل 2019ء سے دارالحکومت طرابلس پر قبضے کے لیے وزیراعظم فایزالسراج کے زیر کمان فوج اور ملیشیاؤں کے خلاف جنگ آزما ہے۔خلیفہ حفتر نے گذشتہ سال نومبر میں اپنے زیر کمان اس فوج کو طرابلس کی جانب پیش قدمی کا حکم دیا تھا۔ انھوں نے شہر میں موجود مسلح ملیشیاؤں کو ہتھیار ڈالنے کی صورت میں محفوظ راستہ دینے کی پیش کش بھی کی تھی۔