ترکی کے وزیر دفاع نے بدھ کے روز ایک اعلان میں بتایا کہ فائز السراج کے زیر قیادت وفاق کی حکومتی ملیشیاؤں کو تربیت دینے کے لیے ترکی کی ایک ٹیم اس وقت لیبیا میں موجود ہے۔ مذکورہ ملیشیائیں لیبیا کی قومی فوج کے خلاف لڑائی میں مصروف ہیں۔ لیبیا کی فوج کی قیادت خلیفہ حفتر کے ہاتھوں میں ہے۔
دریں اثنا ترکی کے ذرائع ابلاغ نے انکشاف کیا ہے کہ مذکورہ ملیشیاؤں کی تربیت کے لیے ترکی کی فوج کے ایک بریگیڈیر جنرل خلیل سویصل کا تقرر کیا گیا ہے۔ خلیل اس سے قبل شمالی شام میں ترکی کے ہمنوا مسلح شامی گروپوں کو بھی تربیت دے چکا ہے۔ وہ ترکی کی اسپیشل فورسز کے تھرڈ بریگیڈ کا کمانڈر بھی رہ چکا ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق خلیل اُس کارروائی کو روکنے والی فورسز میں بھی شامل رہا جس کو ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنے خلاف ایک فوجی انقلاب کی کوشش قرار دیا تھا۔ خلیل نے شمالی شام میں ترکی کے فوجی آپریشن "فرات کی ڈھال" میں بھی شرکت کی۔
شام میں انسانی حقوق کے نگراں گروپ المرصد نے منگل کے روز انکشاف کیا تھا کہ شمالی شام میں لڑنے والے ترکی کے ہمنوا شامی جنگجوؤں میں سے 100 جنگجوؤں کو حال ہی میں ترکی منتقل کیا گیا تا کہ وہاں سے انہیں لیبیا پہنچایا جا سکے۔ المرصد نے مزید بتایا کہ فیلق الشام گروپ کے 300 اضافی جنگجوؤں کو چند روز بعد لیبیا بھیجنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب لیبیا کی فوج کے ایک سینئر اہل کار بریگیڈیر جنرل خالد المحجوب نے زور دیا ہے کہ لیبیا کی فوج اپنی اراضی کو الاخوان کی ملیشیا اور ترک اجرتی جنگجوؤں سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے کام کرے گی۔ بدھ کی شام العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے المحجوب کا کہنا تھا کہ ترکی کی جانب سے اجرتی جنگجوؤں کا بھیجا جانا صرف لیبیا کی فوج نہیں بلکہ اس کے عوام کی دشمنی کے دائرہ کار میں آتا ہے۔
المحجوب کے مطابق دشمن ہونے کے سبب لیبیا کی فوج اور عوام ترکی کو کسی بھی مذاکرات میں ثالثی کی حیثیت سے قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ "ترکی ثالثی کا کردار کس طرح ادا کر سکتا ہے جب کہ وہ دہشت گرد ملیشیاؤں کے حق میں جانب دار ہے اور اجرتی جنگجوؤں کو لیبیا میں لے کر آ رہا ہے جو لیبیا کے استحکام اور اس کے عوام کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں ؟