امریکی سینیٹ میں وائٹ ہاؤس کے وکلاء نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے ٹرائل میں اپنے دفاعی دلائل کا آغاز کردیا ہے۔امریکی سینیٹ میں صدر ٹرمپ کا اختیارات کے غلط استعمال اور کانگریس کی راہ میں حائل ہونے کے الزام میں مواخذہ کیا جارہا ہے۔
ہفتے کے روز سینیٹ کا غیر معمولی اجلاس طلب کیا گیا تھا اور وائٹ ہاؤس کے وکیل پیٹ سیپولون نے سب سے پہلے اپنے دلائل شروع کیے تھے۔وکلائے صفائی کے دلائل کے بعد امریکی سینیٹ یہ فیصلہ کرے گی کہ آیا ملک کے پینتالیسویں صدر کو عہدے پر برقرار رہنا چاہیے یا انھیں منصب سے سبکدوش کردینا چاہیے۔
ایوانِ نمایندگان سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹک پراسیکیوٹرز نے جمعہ کی شب یوکرین کے معاملے پر صدرٹرمپ کو ہٹانے کے لیے اپنے دلائل مکمل کر لیے تھے۔ ایوان نمایندگان نے 18 دسمبر کو ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی مکمل کی تھی۔
وکیل صفائی سیپولون نے کہا کہ ایوان نمایندگان کے پراسیکیوٹرز اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔انھوں نے سینیٹ کے ارکان سے مخاطب ہوکر کہا:’’ ہم یہ یقین نہیں کرتے کہ وہ جو کچھ کہہ رہے، اس کا کوئی ثبوت بھی پیش کرسکے ہیں بلکہ درحقیقت ہم اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ جب ہم دلائل پیش کریں گے تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ صدر نے کچھ غلط نہیں کیا تھا۔‘‘
وائٹ ہاؤس کے وکیل نے مزید کہا:’’ ڈیموکریٹس یہ کہنے کی کوشش کررہے ہیں کہ گذشتہ صدارتی انتخابات کے نتائج کالعدم قراردے دیے جائیں،ملک بھر میں جو ووٹ ڈالے گئے تھے، انھیں پھاڑ پھینکا جائے اور اس فیصلے کو امریکی عوام سے بالا بالا کیا جائے۔‘‘
ایک سو ارکان پر مشتمل امریکی سینیٹ میں ری پبلکن پارٹی کے تریپن ارکان ہیں اور حزب اختلاف ڈیمو کریٹک پارٹی کے سینتالیس ارکان ہیں۔صدر ٹرمپ کے وکلاء تین دن میں کل چوبیس گھنٹے تک ان کے دفاع میں دلائل دیں گے۔وہ اب سوموار کو بھی اپنے دفاعی دلائل جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کی تاریخ میں تیسرے صدر ہیں جن کا کانگریس میں مواخذہ کیا جارہا ہے۔ان پر یوکرین پراپنے ڈیموکریٹک سیاسی حریف جوزف بائیڈن کے خلاف تحقیقات کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش کا الزام ہے۔جو بائیڈن 2020ء میں امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نامزدگی کے امیدوار ہیں۔
ایوان نمایندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے قرار دیا تھا کہ ’’حقائق ناقابل تردید ہیں۔صدر نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا تھا۔انھوں نے اوول آفس میں ایک اہم اجلاس کو مؤخر کرنے اور امداد روکنے کے بدلے میں اپنے ایک سیاسی حریف کے خلاف تحقیقات کے اعلان کے لیے دباؤ کا حربہ استعمال کیا تھا۔‘‘
صدرٹرمپ نے یوکرین پر زوردیا تھا کہ وہ اس ازکارِ رفتہ نظریے کی بھی تحقیقات کرے کہ 2016ء میں امریکا میں منعقدہ صدارتی انتخابات میں روس نے نہیں، بلکہ یوکرین نے مداخلت کی تھی۔
ڈیموکریٹس نے صدر ٹرمپ پر یہ بھی الزام عاید کیا تھا کہ انھوں نے یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی پر دباؤ ڈالنے کے لیے ان کے ملک کو امریکا کی جانب سے ملنے والی 39 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی امداد روک لی تھی اور ان سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات کروائیں۔صدر ٹرمپ اپنے خلاف مواخذے کی اس کارروائی کو ایک سے زیادہ مرتبہ ایک ڈھونگ اور توہین آمیز قراردے چکے ہیں۔