عراق میں امریکی فضائی حملے میں ایرانی القدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد اٹھنے والا طوفان خاموش ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی امریکی فوج کے عراق سے انخلاء کے مطالبات بھی دھیمے پڑ گئے ہیں۔ شاید تمام فریقوں بالخصوص امریکیوں اور ایرانیوں کا یہ موقف ہے کہ انہیں ایک نئی حقیقت کا سامنا ہے۔
جہاں تک امریکیوں کا تعلق ہے تو وہ مختصرا اپنا موقف اس طرح بیان کرتے ہیں کہ "امریکا خطے کو چھوڑ کر ہر گز نہیں جائے گا"۔ وہ اب عراق اور مشرق وسطی میں باقی رہنے کے انتظامات کر رہے ہیں۔
اس بات کا یہ مطلب ہوا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کے ارکان مشرق وسطی میں ایک نئے انداز سے خطرات کا مقابلہ کرنے کے واسطے کام کر رہے ہیں۔ اس کا مرکزی پہلو "مشرق وسطی میں بقاء" اور نیٹو اتحاد اور علاقائی قوتوں کے ساتھ زیادہ تعاون ہے۔
امریکیوں کی جانب سے باور کرایا جا رہا ہے کہ مشرق وسطی میں درپیش خطرات میں داعش، القاعدہ اور ان کی ذیلی تنظیموں کی دہشت گردی کے علاوہ ایران اور اس کی ہمنوا ملیشیاؤں کا خطرہ شامل ہے۔
اس کے برعکس سابق صدر باراک اوباما کی انتظامیہ کے نزدیک خطرات کی فہرست میں تیل کا بہاؤ روکنا اور اسرائیل اور دوست ممالک کے امن کو درپیش خطرات شامل تھے۔
ٹرمپ انتظامیہ ایک نئے سیکورٹی ڈھانچے کے لیے کوشاں ہے تا کہ داعش کی عدم واپسی اور امریکی مفادات اور شہریوں کو ایرانی حملوں اور اس کی ہمنوا ملیشیاؤں کے خطرات سے محفوظ رکھنے کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسی طرح خطے کے امن و استحکام کو پائیدار اور دیرپا بنانا ہے۔
امریکی انتظامیہ کے ایک ذمے دار نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ "نیٹو اتحاد کے ساتھ بہت سے موضوعات پر بات چیت چل رہی ہے۔ ان میں مشرق وسطی اور وہاں نیٹو کا زیادہ بڑا کردار شامل ہے"۔ امریکی ذمے دار نے زور دے کر کہا کہ "ٹرمپ انتظامیہ خصوصی طور پر اس بات پر توجہ دے رہی ہے کہ دیگر فریقوں کو اخراجات کے بوجھ میں شریک کیا جائے۔ اسی طرح امریکی انتظامیہ نیٹو اتحاد کے قائدانہ کردار میں بھی دل چسپی رکھتی ہے"۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے ساتھ امریکی ذمے دار کی گفتگو خاص طور پر عراق کی صورت حال پر منطبق ہوتی ہے۔
نیٹو اتحاد میں امریکی خاتون سفیر یہ کہہ چکی ہیں کہ "تجویز میں یہ شامل ہے کہ عراق میں امریکا کے زیر قیادت داعش تنظیم کے خلاف لڑنے والے موجودہ اتحاد کو ایک تربیتی مشن میں تبدیل کر دیا جائے اور یہ مشن نیٹو اتحاد انجام دے"۔
لہذا برسلز میں نیٹو اتحاد کے ممالک کے وزراء دفاع کا آئندہ اجلاس خصوصی اہمیت کا حامل ہو گا۔ امریکیوں کی گفتگو میں امید کا عنصر نمایاں ہے کیوں کہ انہیں نیٹو کے سکریٹری جنرل کے اندر ایک سرگرم شخصیت نظر آ رہی ہے جو نیٹو کے کردار کو بڑھانا چاہتے ہیں۔
امریکیوں کا یہ کہنا نہیں ہے کہ عراق میں ان کی موجودگی کا مقصد اور شاید "نیٹو اتحاد کا آئندہ مشن" ایران کا مقابلہ کرنا ہو گا ... بلکہ وہ اتنا کہنے پر اکتفا کر رہے ہیں کہ مشن کا بنیادی مقصد داعش کی واپسی کو روکنا ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ واشنگٹن ایران اور اس کے نفوذ کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے اپنے کردار پر مطمئن ہے۔ امریکا اس وقت خلیج تعاون کونسل اور خطے کے ممالک کے ساتھ زیادہ وسیع سیکورٹی اور دفاعی انتظامات تک پہنچنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ عرب ممالک کے ساتھ امریکی ڈھانچے کا یہ حصہ ،،، خطے میں ایرانی خطرات کا سامنا کرنے کا غالب رجحان رکھتا ہے۔
امریکا خطے میں امریکی علاقائی ڈھانچے کی تجویز پیش کر چکا ہے۔ اس میں سیوکرٹی، معیشت اور مشترکہ عمل شامل ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران اس امریکی علاقائی شراکت داری کی خصوصیات میں بہت سی ترامیم کی گئیں۔ ٹرمپ انتظامیہ امید رکھتی ہے کہ مذکورہ شراکت داری کے حوالے سے حتمی موافقت کو یقینی بنا کر آئندہ دو ماہ کے دوران اس کے مسودے پر دستخط ہو جائیں گے۔
امریکی انتظامیاؤں کے سابق ذمے داران کا کہنا ہے کہ اس وقت فوری فکر تو ایران اور عمومی دہشت گردی کے خطرات کا مقابلہ کرنا ہے .. تاہم درمیانی اور طویل مدت کے لیے روس امریکی نفوذ کے لیے مستقل خطرے کی حیثیت رکھتا ہے .. ماسکو عرب ممالک کے ساتھ مفاہمت اور عرب ممالک کی اراضی پر مستقل اڈوں اور مفادات کے قیام کے مواقع تلاش کر رہا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو امریکا نہیں چاہتا اور اسی واسطے واشنگٹن روس کو چھوڑ کر خطے کے ممالک کے ساتھ علاقائی شراکت داری کا ڈھانچہ وضع کرنے پر زور دے رہا ہے۔