افغانستان:اشرف غنی کی صدارتی انتخابات میں دوسری مدت کے لیے کامیابی کا حتمی اعلان

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

افغانستان کے آزاد الیکشن کمیشن نے صدر اشرف غنی کی دوسری مدت کے لیے کامیابی کا سرکاری طور پر اعلان کردیا ہے۔

افغانستان میں صدارتی انتخابات کے لیے 28 ستمبر 2019ء کو ووٹ ڈالے گئے تھے۔ آزاد الیکشن کمیشن نے قبل ازیں 22 دسمبر کو ان صدارتی انتخابات کے غیر حتمی نتائج کا اعلان کیا تھا۔

Advertisement

حتمی سرکاری نتائج کے مطابق صدر اشرف غنی نے 923592 ( 50۰64 فی صد) ووٹ حاصل کیے ہیں۔ان کے قریب ترین حریف ملک کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے 720841 (39۰52 فی صد) ووٹ حاصل کیے ہیں۔

صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کا اعلان 7 نومبر کو کیاجانا تھا۔لیکن بعض ٹیکنیکل امور اور امیدواروں بالخصوص عبداللہ عبداللہ کی جانب سے بے ضابطگیوں اور فراڈ کے الزامات کی وجہ سے ان کے اعلان میں بار بار تاخیرکی جاتی رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب تک ان کے جائز مطالبات کو تسلیم نہیں کیا جاتا، اس وقت تک وہ انتخابی نتائج کو تسلیم بھی نہیں کریں گے۔

واضح رہے کہ ان صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب بہت کم رہا تھاجبکہ جرمنی کی مہیا کردہ ووٹنگ مشینوں کے پولنگ کے روز بروقت فعال نہ ہونے اور نقائص کی وجہ سے لاکھوں افغان اپنا حق رائے دہی استعمال نہیں کرسکے تھے۔

آزاد الیکشن کمیشن کی سربراہ حوا عالم نورستانی نے قبل ازیں یہ کہا تھا کہ کل رجسٹرڈ 96 لاکھ ووٹروں میں سے صرف 18 لاکھ افغان شہریوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا۔

واضح رہے کہ اشرف غنی نے پہلی مرتبہ 2009ء میں منعقدہ صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔وہ کل ڈالے گئے ووٹوں میں سے ایک چوتھائی حاصل کرسکے تھے۔انھوں نے 2014ء میں دوبارہ صدارتی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ان انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلیوں اور بے ضابطگیوں کی شکایات منظرعام پر آئی تھیں لیکن انھیں کامیاب قرار دیا گیا تھا اور امریکا کے دباؤ پر انھوں نے اپنے حریف عبداللہ عبداللہ کو حکومت میں شامل کیا تھا اور انھیں چیف ایگزیکٹو کا منصب سونپا تھا۔

اشرف غنی افغانستان کے وسطی صوبہ لوگر سے تعلق رکھتے ہیں۔وہ 19 مئی1949ء کو پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی سے علم البشریات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی۔وہ تعلیم سے فراغت کے بعد 1970ء کی دہائی میں صرف چند سال کے لیے وطن لوٹے تھے اور کابل یونیورسٹی میں استاد کی حیثیت سے پڑھاتے رہے تھے۔اس کے بعد وہ امریکا ہی میں مقیم رہے تھے۔وہاں بھی وہ جامعات میں تدریسی خدمات انجام دیتے رہے تھے۔انھیں 1991ء میں عالمی بنک میں سینیر مشیر مقرر کیا گیا تھا۔

اشرف غنی امریکا کی قیادت میں اتحاد کی افغانستان پر اکتوبر 2001ء میں چڑھائی اور طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد وطن لوٹے تھے۔انھیں پہلے کابل یونیورسٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور پھر وہ سابق افغان صدر حامد کرزئی کی کابینہ میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے شامل ہوئے تھے۔

انھوں نے 2010ء میں امریکا کی قیادت میں بین الاقوامی اتحاد کی افواج سے افغانستان کو سکیورٹی کی منتقلی کے لیے مذاکرات کرنے والی ٹیم کی قیادت کی تھی۔ان مذاکرات کے نتیجے میں ایک معاہدہ طے پایا تھا اور غیرملکی افواج سے افغان فورسز کو 2014 میں سکیورٹی منتقل کی گئی تھی۔

منگل کو صدارتی انتخابات کے حتمی نتائج کے اعلان سے چند روز قبل ہی امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے یہ نوید سنائی تھی کہ امریکا اور طالبان کے درمیان جنگ زدہ ملک میں تشدد میں کمی کے لیے ایک سمجھوتا طے پاگیا ہے اور اس کے نتیجے میں افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی راہ ہموار ہوجائے گی۔تاہم ابھی تک اس سمجھوتے پر عمل درآمد کا آغاز نہیں ہوا ہے۔

مقبول خبریں اہم خبریں