امریکا کے محکمہ خزانہ نے لبنان کے تین افراد اور بارہ اداروں پر ایران نواز ملیشیا حزب اللہ کی شہداء فاؤنڈیشن سے تعلق پر پابندیاں عاید کردی ہیں اور ان کے نام دہشت گردی کے تعلق سے تیار کردہ فہرستوں میں شامل کر لیے ہیں۔
امریکا نے ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ برقرار رکھنے کی پالیسی کے تحت اس کی آلہ کار تنظیموں پر بھی پابندیاں عاید کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ حزب اللہ کے وابستگان پر یہ نئی پابندیاں اسی سلسلے کی کڑی ہیں۔
نئی قدغنوں کے تحت امریکی شہری اورادارے ان لبنانی افراد اور اداروں کے ساتھ کوئی کاروبار نہیں کرسکیں گے۔ان کے علاوہ سرکردہ بین الاقوامی بنک بھی ان کے ساتھ کوئی مالی لین دین نہیں کریں گے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے 2016ء میں صدارتی انتخاب کے وقت خارجہ پالیسی کے مشیر ڈاکٹر ولید فارس نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئےکہا ہے کہ ’’ٹرمپ انتظامیہ اور اس کے کانگریس میں اتحادی ایرانی نظام اور خطے میں اس کے اتحادیوں کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ برقرار رکھنے کی پالیسی جاری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے کردار میں بنیادی تبدیلی لائی جاسکے۔‘‘
جوہری اتحاد مخالف اتحاد ایک تجزیہ کار ڈیوڈ داؤد نے العربیہ انگریزی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حزب اللہ کوامریکی پابندیوں کے نفاذ کے بعد مشکلات کا سامنا ہے۔اس کے پیش نظر وہ چندہ اکٹھا کرنے کی سالانہ پانچ مہمیں برپا کرتی ہے اور لبنان اور بیرون ملک سے قانونی کاروباروں سے رقوم وصول کرتی ہے۔اس کے علاوہ وہ اندرون اور بیرون ملک سے غیر قانونی ذرائع سے بھی رقوم وصول کرتی ہے۔
تاہم وہ اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے ہیں کہ ایران پر امریکا کی پابندیوں سے حزب اللہ کی آمدن سکڑ کررہ گئی ہے اور ان پابندیوں کے اس پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ایران پر پابندیوں کے حزب اللہ پر اثرات کے حوالے سے امریکا کی تفہیم شاید مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے گذشتہ سال جولائی میں حزب اللہ کے تین سرکردہ کارکنان پر پابندیاں عاید کی تھیں۔ان میں لبنانی پارلیمان کے دو منتخب ارکان امین شری اور محمد حسن رعد بھی شامل تھے۔ان پر اپنا اثرورسوخ بروئے کار لاتے ہوئے حزب اللہ کی سیاسی ومالی معاونت کا الزام عاید کیا گیا تھا۔
امریکا کے محکمہ خزانہ نے تب کہا تھا کہ حزب اللہ کی سیاسی اور سکیورٹی کی شخصیات کو اپنے عہدوں سے ناجائزفائدہ اٹھاتے ہوئےتنظیم کے ضرررساں ایجنڈے کی معاونت اور ایران کے آلہ کار کا کردارادا کرنے پر دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔امریکا نے گذشتہ سال اگست میں حزب اللہ سے وابستہ دو بنکوں پر بھی پابندیاں عاید کردی تھیں۔
امریکی محکمہ خزانہ کے انڈر سیکریٹری برائے دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس سیگل مینڈلکر نے تب کہا تھا کہ ’’ حزب اللہ اپنے کارکنان کو لبنانی پارلیمان میں اداروں کی مالیاتی اور سکیورٹی مفادات کے لیے حمایت کے حصول کی غرض سے استعمال کررہی ہے اور ایران کی تخریبی سرگرمیوں کو تقویت دے رہی ہے۔‘‘
انھوں نے بیان میں مزید کہا کہ ’’حزب اللہ لبنان اور خطے بھر کی سلامتی اور استحکام کے لیے خطرے کا موجب ہے اور وہ یہ سب کچھ لبنانی عوام کی قیمت پر کررہی ہے۔ امریکا لبنانی حکومت کی اپنے اداروں کو ایران اور اس کی گماشتہ دہشت گرد تنظیموں کے استحصال سے بچانے کے لیے کوششوں کی حمایت جاری رکھے گا تاکہ وہ لبنان کے ایک پُرامن اور خوش حال مستقبل کو محفوظ بنا سکے‘‘۔
امریکی انتظامیہ کے ایک سینیر عہدہ دار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’دنیا بھر میں اب دوسری اقوام کے لیے یہ یقین کرنے کا وقت آگیا ہے اور وہ یہ تسلیم کریں کہ حزب اللہ کے سیاسی ونگ اور اس کے عسکری بازو میں کوئی فرق نہیں ہے‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ حزب اللہ کا کوئی بھی رکن جو کسی سیاسی عہدے کا امیدوار ہے تو اس کو جان لینا چاہیے کہ وہ کسی سیاسی دفتر کی چھتری تلے چھپ نہیں سکتا ہے۔
واضح رہے کہ امریکا نے 2017ء میں حزب اللہ کودہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کےالزام میں بلیک لسٹ قراردیا تھا اور اس سے وابستہ کارکنان ، لیڈروں اور اداروں پر پابندیاں عاید کرنا شروع کی تھیں۔امریکا اب تک حزب اللہ ملیشیا اور اس کی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے پچاس سے زیادہ افراد پر پابندیاں عاید کرچکا ہے۔