دنیا میں کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ افراد اس وقت امریکا میں ہیں۔ اس وبائی مرض نے امریکی طیارہ بردار جہاز "یو ایس ایس تھیوڈر روز ویلٹ" کے کپتان بریٹ کروزیئر کو بھی شکار بنا لیا۔ انہوں نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ جہاز پر کرونا وائرس پھیل چکا ہے۔ اس کے سبب کروزیئر کی برطرفی عمل میں آئی۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے انکشاف کے مطابق امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کیپٹن کروزیئر کو برطرف کرنے کا اعلان کیا۔ اس فیصلے کے چند گھنٹے بعد کروزیئر کے کرونا ٹیسٹ کا نتیجہ سامنے آ گیا جو کہ مثبت تھا۔
ایسپر نے امریکی نیوز چینل "ABC" کو بتایا کہ امریکی بحریہ کے وزیر تھامس موڈلی نے بریٹ کروزیئر کو امریکی بحری جہاز "يو ایس ایس روز ویلٹ" کی کمان سے ہٹانے کا "مشکل فیصلہ" کیا۔ یہ طیارہ بردار بحری جہاز جوہری توانائی سے کام کرتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ایسپر نے جواب دیا کہ "یہ فیصلہ صدر ٹرمپ کا نہیں بلکہ بحریہ کے وزیر کا تھا۔ انہوں نے مجھے مطلع کیا جس پر میں نے ان سے کہا کہ میں اس فیصلے کی حمایت کروں گا"۔
اس برطرفی کے فیصلے کی پر زور مذمت کی گئی اور اسے ایک محترم افسر کے خلاف سخت اور غیر منصفانہ سزا قرار دیا گیا۔ ایک ایسا افسر جس نے اپنے جہاز کے عملے کو بچانے کے لیے اپنے سربراہان سے اپیل کی کہ جہاز کو خالی کرنے کی اجازت دی جائے۔
کیپٹن بریٹ کروزیئر نے گذشتہ ہفتے کے دوران امریکی وزارت دفاع (پینٹاگان) کو آگاہ کر دیا تھا کہ کرونا وائرس جہاز پر اس طرح سے پھیل چکا ہے کہ اسے قابو میں لانا ممکن نہیں۔ کروزیئر نے عملے کے افراد کو وہاں سے ہٹانے کے لیے فوری امداد پیش کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔
کپتان کا یہ بھی کہنا تھا کہ علاقے میں پھیلے امریکی جوہری توانائی سے کام کرنے والے طیارہ بردار جہازوں کے عملے کی اکثریت کو نکال کر انہیں خصوصی طور سے دو ہفتوں کے لیے الگ تھلگ رکھا جائے۔
پینٹاگان کے سینئر عہدے داران کے مطابق کروزیئر نے اعلی حکام کو لکھے گئے اپنے خط کو میڈیا تک پہنچا کر غلطی کی۔
ہفتے کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس میں بریٹ کروزیئر کی برطرفی کے فیصلے کی حمایت کی۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ "اسے اپنے خط میں اس طرح سے گفتگو نہیں کرنا چاہیے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس نے جو کچھ کیا وہ خوف ناک امر ہے"۔
نیویارک ٹائمز اخبار کے مطابق کرونا کے وبائی مرض کی علامات جمعرات کے روز جہاز سے کوچ کر جانے سے قبل ہی کروزیئر پر ظاہر ہونا شروع ہو گئی تھیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی انتخابات کے لیے ممکنہ امیدوار جو بائڈن نے اتوار کے روز اس برطرفی کے فیصلے کی مذمت کی۔ امریکی چینل اے بی سی کو دیے گئے بیان میں انہوں نے کہا کہ "یہ فیصلہ جرم کے نزدیک تر ہے"۔