افغانستان میں حکام کو ایران کی سرحد کے ساتھ واقع صوبے ہرات میں کرونا کی روک تھام کے حوالے سے گوشہ نشینی کے اقدامات لاگو کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ یہاں ایران سے واپس آنے والے افغانوں کے سبب اور لوگوں کی جانب سے سماجی دوری کی عدم پاسداری کے نتیجے میں کرونا وائرس کا پھیلاؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
ہرات شہر افغانستان کا تیسرا بڑا شہر ہے اور یہاں کرونا وائرس کے کیسوں کی بڑی تعداد سامنے آئی ہے۔
افغانستان کو کرونا کے ٹیسٹ کے حوالے سے مطلوب لوازمات میں بھی قلت کا سامنا ہے۔ ہرات صوبے میں طبی اور سیکورٹی بحران سنگین تر ہو گیا ہے۔ یہاں ہزاروں افراد سماجی دوری کے قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑا کر رمضان کے آغاز پر ایک مذہبی اجتماع میں شریک ہوئے۔
ہرات صوبے کے گورنر کے ترجمان جیلانی فرہاد کا کہنا ہے کہ "ہم لوگوں سے سماجی دوری کے اصولوں پر کاربند رہنے کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر وہ اس پر کان نہیں دھرتے ہیں ، مبلغین حضرات بھی اس کا نمونہ پیش نہیں کر رہے"۔
فرہاد کا مزید کہنا تھا کہ "ہم لوگوں سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ اس وائرس کو سنجیدگی سے لیں ... یہ کوئی مذاق نہیں ہے"۔
افغانستان میں 26 اپریل بروز اتوار تک کرونا وائرس کے 1531 کیس اور 50 اموات کا اندراج ہو چکا ہے۔ تاہم بین الاقوامی مبصرین اور طبی ٹیموں کے اہل کاروں کے نزدیک اس متعدی وائرس کے کیسوں کی حقیقی تعداد مذکورہ اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
افغان وزارت صحت کے مطابق ہرات صوبے کے لوگوں میں 390 افراد کرونا سے متاثر ہیں۔ صوبے میں اس وبائی مرض کے سبب 8 افراد فوت ہو چکے ہیں۔ یہاں پر کرونا میں مبتلا افغانوں کی بڑی تعداد ان افراد کی ہے جو ایران سے واپس لوٹے ہیں۔
روزانہ تقریبا دو ہزار افغان شہری ایران کی سرحد پار کر کے ہرات پہنچتے ہیں۔ یہاں صرف 10 وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔ اب تک صوبے میں کم از کم دس طبیب کرونا سے متاثر ہو چکے ہیں۔
ایک سینئر مغربی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ "افغانستان میں صحت کی نگہداشت کے نظام کو کرونا وائرس کی وبا اور دیگر طبی بحرانات سے نمٹنے کے لیے ہنگامی طور پر دو ارب ڈالر کی ضرورت ہے"۔ کئی دہائیوں سے جاری جنگ و جدل کے سبب افغانستان کے طبی نگہداشت کے نظام کو شدید نقصان پہنچا ہے۔