تہران پر عائد امریکی پابندیوں کے نتیجے میں چین اور ایران کے درمیان تجارت کا حجم کئی دہائیوں کی نچلی ترین سطح پر آ گیا ہے۔ اس بات کا انکشاف امریکی نیوز ایجنسی بلومبرگ نے کیا۔
رپورٹ کے مطابق دونوں ملکوں کے بیچ تجارت ایسی سطح پر پہنچ چکی ہے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ چین کے کسٹم انتظامیہ کے محکمے نے جمعرات کے روز بتایا کہ رواں سال مارچ میں ایرانی تیل کی اعلانیہ درآمدات کی مالیت صرف 11.5 کروڑ ڈالر رہی۔ یہ سالانہ بنیادوں پر 89% کی کمی ہے۔
تقریبا ایک سال سے زیادہ عرصے سے چی ننے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات کم کرنا شروع کر دیے تھے۔ چین اور ایران کے درمیان تجارت میں مرکزی حیثیت ادا کرنے والے کونلون بینک کی پالیسی میں بھی واضح تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ دیگر ترقی پذیر معیشتوں کی طرح ایران بھی اپنی معیشت کی نمو کے لیے چین کے ساتھ تفاعلی تجارتی تعلقات پر انحصار کرتا آیا ہے۔ لہذا موجودہ صورت حال تہران کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے۔
Remember when many experts told you that robust Chinese trade with Iran would continue despite U.S. max pressure campaign.
— Mark Dubowitz (@mdubowitz) April 28, 2020
The same experts who told you US had to do nuke deal in 2015 because sanctions regime would otherwise collapse.
Well then... https://t.co/ePVxvf47jl
رواں سال مارچ میں چین کے لیے ایران کی "نان آئل" برآمدات کا حجم 38.4 کروڑ ڈالر پر ٹھہرا رہا۔ گذشتہ برس ستمبر سے ایران کو چین کے ساتھ تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملک میں ادائیگیوں کے توازن کا بحران سنگین تر ہو گیا۔
چین کے ساتھ تجارتی معاہدے کے پہلے مرحلے پر ٹرمپ انتظامیہ کے دستخط کرنے سے تقریبا ایک ہفتہ قبل واشنگٹن نے تہران پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔ ان پابندیوں کا براہ راست اثر پڑا اور کونلون بینک نے اپنی پالیسیوں کو تبدیل کر دیا۔ اس کے نتیجے میں تہران کا تجارتی دائرہ کار محدود ہو گیا۔
مذکورہ بینک نے اپنے ایرانی ایجنٹس کو آگاہ کر دیا تھا کہ 9 اپریل کے بعد تعمیرات ، کان کنی اور ٹیکسٹائل کی صنعت کے شعبوں میں کسی قسم کی تجارتی ادائیگی قبول نہیں کی جائے گی۔ بینک کا کہنا تھا کہ اس کی خدمات صرف "انسانی امداد پر مشتمل سامان اور پابندیوں کی تحت نہ آنے والی صنعتوں" تک محدود ہوں گی۔
دیگر ممالک کی طرح چین نے بھی اس ضرر کی تلافی کی کوشش کی جو ایران کو مدد پیش کرنے کے دوران کرونا وائرس کے پھیلنے کے سبب چین کی ساکھ کو پہنچا تھا۔
چین اعلانیہ طور پر 2015 کے ایرانی جوہری معاہدے کی سپورٹ اور امریکی پابندیوں کی مخالفت کرتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود چین نے گذشتہ برس کے دوران ایران کے ساتھ اپنی تجارت کے دفاع کے لیے جو کچھ کیا وہ یورپی یونین سے بھی کم تھا۔
تجارتی حقائق کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ چین اور ایران کی باہمی تجارت کے حوالے سے ترقی اور تاب ناکی کا زمانہ گزر چکا ہے۔ تاہم اب سیاسی حقائق کے میدان میں دونوں ملکوں کے بیچ تعلقات کی بربادی دیکھی جا سکتی ہے۔