ایران قیدیوں کے تبادلے کے لیے واشنگٹن کے ساتھ خفیہ مذاکرات کر رہا ہے : امریکی اخبار
ایران کی جانب سے امریکا کے خلاف جارحانہ بیانات کی جنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم اس کے باوجود تہران اس وقت واشنگٹن کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے خفیہ مذاکرات کر رہا ہے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایران کے ایک اعلی سطح کے عہدے دار نے بتایا کہ ایران اور امریکا اس وقت ایک سمجھوتے پر بات چیت کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد امریکی بحریہ کے ایک سینئر جنگجو کی رہائی ہے۔ اس اہل کار کو ایرانی حکام نے امریکا میں گرفتار ایک امریکی ایرانی ڈاکٹر کے مقابل حراست میں لے رکھا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایرانی ںظام اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان تعلقات کو بگاڑنے والے بڑھتے ہوئے تناؤ اور فوجی طاقت کی دھمکیوں کے پیش نظر یہ مذاکرات نارمل نوعیت کے نہیں ہیں۔
واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے میں ایرانی مفادات کے نگراں شعبے کے نائب ڈائریکٹر ایرانی ذمے دار ابو فاز مہر آبادی کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا مقصد ایران میں دو سال سے زیر حراست 48 سالہ امریکی مائیکل وائٹ کا ایک ایرانی امریکی ڈاکٹر سے تبادلہ ہے۔ مہر آبادی نے مذکورہ ڈاکٹر کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت ابھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچی ہے۔
ادھر مائیکل وائٹ کے گھرانے کے ترجمان جوناتھن فرینکس کا بھی کہنا ہے کہ فریقین کے بیچ مذاکرات جاری ہیں۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے تفصیلات نہیں بتائیں۔
اس وقت کم از کم چار امریکی ایران کی حراست میں ہیں۔ ان میں سے کم از کم 3 ایرانی نژاد ہیں۔ ادھر ایران کا کہنا ہے کہ امریکا نے تقریبا 24 ایرانیوں کو حراست میں لے رکھا ہے۔
مائیکل وائٹ کو مارچ کے اواخر میں عارضی طور پر ایرانی جیل سے رہا کر دیا گیا تھا۔ یہ رہائی کرونا وائرس کے متعدی مرض پر قابو پانے میں معاونت کے لیے قیدیوں کو رخصت دینے کے عمل کا حصہ تھی۔ وائٹ اس وقت تہران میں سوئٹزر لینڈ کے سفارت خانے میں زیر حراست ہے۔ یہ سفارت خانہ ایران میں امریکی مفادات کی نمائندگی کرتا ہے۔
I have instructed the United States Navy to shoot down and destroy any and all Iranian gunboats if they harass our ships at sea.
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) April 22, 2020
مئی 2018 میں امریکا نے 2015 میں طے پائے گئے ایرانی جوہری معاہدے سے علاحدگی اختیار کر لی تھی۔ اس کے بعد سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے عائد کرنے اور انہیں مزید سخت کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس کے نتیجے میں ایران کی معیشت کی کمر ٹوٹ گئی۔ وائٹ ہاؤس کے عہدے داران نے کرونا بحران کے سبب انسانی وجوہات کی بنا پر پابندیاں نرم کرنے کی ایرانی درخواست کو مسترد کر دیا۔
اس کے جواب میں ایران نے زیادہ دفاعی اور اشتعال انگیز موقف اختیار کر لیا۔ اس نے جوہری معاہدے میں مقرر کردہ حد سے زیادہ مقدار میں یورینیم کی افزودگی شروع کر دی۔ اس نے ایک فوجی سیٹلائٹ فضا میں چھوڑا اور پورے مشرق وسطی میں اپنی ملیشیاؤں کو سپورٹ فراہم کی۔
امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان مورگن اورٹاگوس یہ کہہ چکی ہیں کہ صدر ٹرمپ کی اولین ترجیح زیر حراست امریکیوں کی اپنے گھروں کو واپسی ہے۔
واشنگٹن میں ایرانی سفارت کار ابو فاز مہر آبادی کے مطابق امریکا میں زیر حراست ڈاکٹر ایرانی اور امریکی دہری شہریت رکھتا ہے اور وہ ضمانت پر رہا ہو گیا۔ مہر آبادی نے مزید بتایا کہ ایران میں اس وقت دہری شہریت کے حامل قیدی مذاکرات کے حالیہ دور کا حصہ نہیں ہیں۔
ایران میں زیر حراست تمام ایرانی امریکی قیدیوں پر جاسوسی کا مبہم الزام ہے جس کا یہ سب لوگ انکار کر چکے ہیں۔