ایران کے دھمکی آمیز بیانات،یواے ای کا کرونا کی وَبا سے نمٹنے کے لیے کشیدگی ختم کرنے پرزور
متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے ایران کے دھمکی آمیز بیانات سے خطے میں پیدا ہونے والی کشیدگی ختم کرنے کی ضرورت پر زوردیا ہے تاکہ ممالک کرونا وائرس کی مہلک وَبا کے خلاف جنگ پر اپنی توجہ مرکوز کرسکیں اور مستقبل کے لیے اپنی اپنی معاشی حکمت عملی وضع کرسکیں۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے بدھ کو ایک بیان میں یہ دھمکی دی ہے کہ اگر امریکا نے ایران پرروایتی ہتھیاروں کی تجارت پر عاید پابندی میں توسیع کی کوشش کی تو اس کا تباہ کن جواب دیا جائے گا۔اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس سال کے آخر میں یہ پابندی ختم کررہی ہے جبکہ امریکا اس میں توسیع کے لیے کوشاں ہے۔
انورقرقاش نے بیروت انسٹی ٹیوٹ سمٹ کے زیراہتمام ایک ویبی نار کے دوران میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’’ہمیں حقیقی معنوں میں کشیدگی کے خاتمے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘ ان سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ کیا یہ تشویش پائی جارہی ہے کہ ایران خطے میں محاذ آرائی کو بڑھاوا دے سکتا ہے۔
یو اے ای کے وزیر مملکت نے کہا:’’ہمارا خطہ بھی دنیا کے دوسرے تمام خطوں کی طرح مالی اور سیاسی طور پر کمزور ہورہا ہے۔ہمارے لیے دانش مندی کی بات یہ ہوگی کہ ہم ترقیاتی ماڈلوں کے بارے میں سوچیں ،کشیدگی کم کریں اور کچھ نا کچھ مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں۔‘‘
انور قرقاش کا کہنا تھا کہ اگر خطے میں کشیدگی نہیں ہوگی تو ممالک کرونا کی وبا کے مضمرات سے نمٹ سکیں گے۔انھوں نے کہا کہ خلیج کے توانائی پیدا کرنے والے ممالک اس وقت عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں گراوٹ کی وجہ سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں،انھیں اپنی معیشتوں کو متنوع بنانے کے منصوبوں کو تیز کرنا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے خطے میں تارکینِ وطن کی معاونت سے پہلے سے روبہ عمل معاشی ماڈل اب شاید زیادہ دیر تک کارآمد ثابت نہ ہوں اور ہمیں متبادل تلاش کرنا ہوں گے۔انھوں نے کہا کہ کرونا کی وبا کی وجہ سے تارک وطن مزدوروں کی مارکیٹ بھی غیر متوازن ہوچکی ہے۔
واضح رہے کہ ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان جولائی 2015ء میں طے شدہ ڈیل کی شرائط کے تحت تہران کے خلاف عاید روایتی ہتھیاروں کی تجارت پرپابندی اکتوبر میں ختم ہورہی ہے۔اس سمجھوتے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو منجمد کرنے سے اتفاق کیا تھا اور اس کے بدلے میں اس کے خلاف عاید بین الاقوامی پابندیاں بتدرج ختم کردی گئی تھیں۔
لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2018ءمیں اس سمجھوتے سے یک طرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا اور ایران کے خلاف دوبارہ سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں۔اب امریکا کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے خلاف اسلحہ کی تجارت پر پابندی میں مزید توسیع چاہتا ہے اور وہ اپنے یورپی اتحادیوں کو بھی اس کی حمایت پرآمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے جبکہ ایران اس صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہا ہے۔