افغان صدرکا ایران کے ساتھ سرحدی دریا میں تارکینِ وطن کو ڈبونے کے واقعےکی تحقیقات کا حکم

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

افغان صدر اشرف غنی نے ایران کے ساتھ واقع سرحدی علاقے میں متعدد ہم وطن مہاجروں کے ڈوبنے کے واقعے کی مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ایران کے سرحدی محافظوں نے انھیں مبیّنہ طور پر دریا میں کود جانے پر مجبور کیا تھا جس کے نتیجے میں ان میں سے متعدد افراد ڈوب مرے تھے۔

افغان حکام پہلے ہی اس واقعے کی تحقیقات کررہے ہیں لیکن صدر اشرف غنی نے دس ارکان پر مشتمل ایک نئی ٹیم اس واقعے کی تحقیقات کے لیے مقرر کی ہے۔صوبہ ہرات اور ایران کے درمیان واقع دریائے ہری رود سے اٹھارہ افغان تارکین وطن کی لاشیں نکالی گئی تھیں اور ان میں سے بعض پر تشدد کے نشانات تھے۔

افغان حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ تارکین وطن دریائے ہری رود میں ڈوبے تھے۔وہ مغربی صوبہ ہرات سے پڑوسی ملک ایران میں داخل ہونے کی کوشش کررہے تھے مگر ایرانی کے سرحدی محافظوں میں انھیں زبردستی دریا میں دھکیل دیا تھا۔

افغان صدر کے دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ صدر اشرف غنی نے ایک حکم کے ذریعے ایران کی سرحد کے ساتھ متعدد ہم وطنوں کے ڈوب مرنے کے واقعے کی تفصیلی تحقیقات کے لیے ایک دس رکنی ٹیم مقرر کی ہے۔‘‘

قبل ازیں جمعہ کو صوبہ ہرات کے ضلع گلران کے گورنر عبدالغنی نوری نے بتایا تھا کہ حکام نے اب تک دریا سے 18 لاشیں نکال لی ہیں۔ان لاشوں پر مار پیٹ اور تشدد کے نشانات ہیں۔

ان کے بہ قول 55 افغان تارکین وطن کو زبردستی دریا میں دھکیل دیا گیا تھا۔ان میں چھے ابھی تک لاپتا ہیں اور باقی کو بچا لیا گیا ہے۔

ضلعی گورنر نے بچ جانے والے افغانوں کے بیانات کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایران کے سرحدی محافظوں نے پہلے ان مہاجروں کو تاروں سے مارا پیٹا تھا۔پھر ان پر بندوقیں تان لی تھیں اور انھیں جانیں بچانے کے لیے دریا میں چھلانگیں لگانے پر مجبور کردیا تھا۔

افغانستان کے انسانی حقوق کمیشن نے گذشتہ ہفتے یہ کہا تھا کہ ایران کے سرحدی محافظوں نے پہلے ان تارکین وطن کو دریائے ہری رود کو عبور کرنے کی اجازت دے دی تھی۔اس دوران میں ان میں سے متعدد ڈوب مرے تھے۔

دوسری جانب ایرانی حکام نے افغان حکام کے ان دعووں کو مسترد کردیا ہے اوران کا کہنا ہے کہ ان مہاجروں کے ڈوبنے کا واقعہ افغانستان کی حدود میں پیش آیا تھا۔

مقبول خبریں اہم خبریں