ایردوآن حکومت جیلوں میں اپوزیشن کے لوگوں کو دشمن خیال کر رہی ہے: ترک خاتون ایڈوکیٹ
ترکی میں مختلف علاقوں میں جیلوں کے اندر درجنوں افراد کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ اس کے نتیجے میں ترکی کی اپوزیشن جماعتوں اور انسانی حقوق کے دفاع کرنے والوں کے اندیشوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جیلوں میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے مخالفین کی ایک بڑی تعداد پڑی ہوئی ہے۔ ان کی زندگیوں کو کرونا وائرس کے سبب درپیش خطرے کے باوجود ایردوآن نے اپنے مخالفین کی رہائی سے انکار کر دیا ہے۔
ترکی میں سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیے جانے والوں کے حقوق کا دفاع کرنے والی قانونی ٹیم کی ایک سینئر وکیل نے جیلوں میں کرونا وائرس کے پہنچ جانے کے بعد زندانوں میں پڑے ہوئے افراد کی زندگی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ایڈوکیٹ عائشہ آجینکلی جو وکلاء کی غیر سرکاری انجمن کی شریک سربراہ بھی ہیں ،،، ان کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس صرف سیلیوری جیل میں داخل نہیں ہوا بلکہ یہ دو شہروں ازمیر اور ماردین میں بھی دیگر جیلوں میں داخل ہو چکا ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے ساتھ ٹیلیفونک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ "ہفتے کے روز تک سیلیوری جیل میں کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد 44 ہو چکی تھی۔ ابھی تک ہمارا کوئی مؤکل متاثر نہیں ہوا ہے مگر ہمیں اس حوالے سے تشویش ہے۔ متاثرہ افراد کا ہمارے مؤکلین کے ساتھ میل ملاپ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ بڑے پیمانے پر اختلاط ان افراد کے ساتھ ہوتا ہے جو جیل کے باہر سے آتے ہیں۔ ان میں جیل کے محافظین، صفائی کے کارکنان، مالی، ڈاکٹرز، تیماردار اور جو لوگ کھانا تیار کرتے ہیں وہ شامل ہیں"۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت پر لازم ہے کہ وہ مذکورہ افراد کو رہا کرے بالخصوص جب کہ ان میں اکثریت صحافیوں اور وکیلوں کی ہے۔
عائشہ کے مطابق ان کی ٹیم نے ایک بڑی مہم چلائی ہے جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ملک میں تمام قیدیوں کو رہا کر دے۔ اس سے وہ لوگ مستثنی ہوں جو معاشرے کے لیے خطرہ ہیں مثلا عصمت دری یا دیگر بھیانک جرائم کے مرتکب ہوں۔ تاہم اس کے برعکس ہوا اور حکومت نے سنگین جرائم میں ملوث مجرموں کو تو رہا کر دیا اور جنہوں نے جرم نہیں کیا ان کو رہائی سے مستثنی کر دیا گیا۔ اگرچہ ان میں بعض لوگ پہلے سے دیرینہ امراض میں مبتلا ہیں۔ ؎
خاتون ایڈوکیٹ نے باور کرایا کہ اس وقت زیر حراست سب سے بڑا مجموعہ سیاسی قیدیوں کا ہے جن کو حکومت رہا نہیں کرنا چاہتی۔ انہوں نے کہا کہ "میں سمجھتی ہوں کہ ان لوگوں کو بآسانی رہا کیا جا سکتا ہے کیوں کہ ان لوگوں نے کسی کو ایذا نہیں پہنچائی۔ تاہم حکومت نے مجرموں کو رہا کر ڈالا۔ یہ ایک بڑی غلطی ہے جس نے حکومت کو کردوں اور سیاسی طور پر گرفتار قیدیوں کے سامنے دشمنانہ پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے"۔
عائشہ آجینکلی نے باور کرایا کہ حکومت سیاسی قیدیوں کو ملک کے اندر اپوزیشن کے طبقے کی نظر سے نہیں بلکہ دشمن کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ اسی واسطے ان افراد کو خراب حالات کا سامنا ہے۔ جیلوں میں کھانے پینے اور صحت کا نظام بہت برا ہے۔
خاتون ایڈوکیٹ نے ترکی کی وزارت انصاف کے بیانات پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ جیل میں کرونا سے متاثرہ افراد اور اس کے سبب مرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے صحیح اعداد و شمار کو چھپا رہی ہے۔
عائشہ کے مطابق حکام نے ترکی میں کرونا کی وبا پھیلنے کے بعد تقریبا دو ماہ سے جیلوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ روک دیا۔ حکام نے قیدیوں کے وکلا اور گھر والوں کو ملاقات سے روک دیا ہے۔ ان لوگوں کو صرف فون پر رابطے کی اجازت ہے۔
اتوار کے روز یورپی پارلیمںٹ کی ایک رکن کیٹی بیری نے ترکی کے حکام سے حرکت میں آنے کی اپیل کی۔ اپنی ٹویٹ میں انہوں نے لکھا کہ "سیلیوری کی جیل میں بہت سے سیاسی قیدی موجود ہیں۔ یہاں کوویڈ 19 کے 44 کیس ریکارڈ کیے جا چکے ہیں۔ لہذا اگر ترکی کی حکومت یہ سوال کرے کہ اسے کیاکرنا چاہیے تو میں سادہ سا جواب یہ دوں گی کہ انہیں رہا کر دیا جائے"۔