حزب اللہ کی امریکا میں بلیک لسٹ کمپنیوں کے پیچھے چھپے رازوں کی تفصیل

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

امریکی انٹلیجنس اینڈ ٹیررازم سے متعلق انفارمیشن سینٹر نے ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی ہے جس میں ان ناموں ، تاریخوں اور ان خفیہ رازوں کی تفصیل جاری کی گئی ہے جو لبنانی شخصیات اور دہشت گرد تنظیم حزب اللہ سے وابستہ کمپنیوں کے خلاف امریکی پابندیوں کا باعث بنے تھے۔

رپورٹ بتایا گیا ہے کہ 26 فروری سنہ 2020 کو امریکی محکمہ خزانہ کے غیرملکی اثاثوں کی چھان بین کرنے کے ذمہ دار دفترنے حزب اللہ اور لبنانی شخصیات اور کمپنیوں پرعاید کی جانے والی پابندیوں کی تفصیل شائع کی گئی۔ اس فہرست میں حزب اللہ شہداء فاؤنڈیشن کے سربراہ سمیت تین دہشت گردوں کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ اس کے علاوہ ، شہدا کارپوریشن کے اطلس ہولڈنگ کمپنی سمیت 11 دوسری فرموں کو بلیک لسٹ کیا گیا اوران پر دہشت گردی کی مالی مدد کا الزام عائد کرکے ان کے اثاثے منجمد کیےگئے۔

Advertisement

لبنانی عوام کا استحصال

تفصیلات میں امریکی محکمہ خزانہ کی ویب سائٹ کے 26 فروری 2020 کو جاری کردہ بلیٹن کے مطابق وزیر خزانہ اسٹیفن منوچن حزب اللہ کی بدعنوانی اور دہشت گردانہ عزائم کے خلاف سخت اقدامات کا ارادی رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے امریکی وزیر خزانہ اسٹیفن منوچن کا ایک بیان بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ حزب اللہ اپنے عسکری اور دہشت گردانہ عزائم کی تکمیل کے لیے عوام کی صحت اور معیشت کے لئے ضروری سامان بیچ کر اس کی قیمت پر لبنانی عوام کے معاشی حقوق کا استحصال کررہی ہے۔

امریکی وزارت خزانہ کے اعلان میں حزب اللہ سے وابستہ افراد ، اداروں اور کمپنیوں پر پابندیوں میں توسیع کی پالیسی کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ افراد اور کمپنیاں چاہے براہ راست حزب اللہ کے ماتحت ہوں یا حزب اللہ کی پالیسیوں کی حمایت کی مرتکب ہوں۔

پابندیوں میں توسیع

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حزب اللہ کے خلاف پابندیوں میں توسیع نومبر 2018 میں حزب اللہ کے خلاف قانون سازی اور قانون نافذ کرنے والے اقدامات کے سلسلے کے بعد ممکن ہوئی۔ حزب اللہ کے خلاف پابندیوں کے معاملے میں امریکی کانگرس میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کی طرف سے بھرپور حمایت فراہم کی گئی اور اس حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے موقف کی تائید کی گئی جس کےنتیجے میں حزب اللہ پرپابندیوں کی راہ ہموار ہوئی۔

امریکی کانگرس نے دو بلوں کی منظوری دی جن میں حزب اللہ کے خلاف مہم اور دنیا بھر میں حزب اللہ کے عناصر کی مجرمانہ سرگرمیوں میں قانون نافذ کرنے والے حکام کو وسیع اختیارات دینا تھا۔

حزب اللہ کے انتہائی اہم ادارے

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہداء فاؤنڈیشن ایران نے سنہ 1983 میں قائم کی تھی۔ یہ تنظیم حزب اللہ کے اہم اداروں میں شامل ہے۔ یہ تنظیم نام نہاد "شہدا" کے اہل خانہ اور فوجیوں کے خاندانوں کومعاشرتی اور معاشی مدد فراہم کرتی ہے۔ اس گروپ کا مقصد جنگجوئوں اور ان کےخاندانوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کے لیے شہدا فائونڈیشن ایران اور لبنان میں ایک ثقافتی ادارے کی شکل میں بھی کام کرتی ہے۔یعنی حزب اللہ کو افرادی قوت فراہم کرنے اور تنظیم کے لیے جنگجو بھرتی کرنے میں مدد کرتی ہے

حزب اللہ شہداء فاؤنڈیشن کا زیادہ تر بجٹ ایران سے وصول کرتی ہے۔ اس کا ایک چھوٹا سا حصہ تجارتی کمپنیوں کے عطیات اور منافع پر مشتمل ہے جو شہداء فاؤنڈیشن کی حمایت کرتی ہیں۔

حزب اللہ کی ملکیت والی کمرشل کمپنیوں میں متعدد کو امریکا نے بلیک لسٹ کردیا ہے ان میں اٹلس کمپنی خاص طور پرشامل ہے۔ اس کمپنی پرالزام ہے کہ وہ حزب اللہ کی مالی مدد کررہی ہے۔

اٹلس ہولڈنگ کمپنی دواسازی اور پٹرول کمپنیوں اور منصوبوں کے انتظام میں مہارت رکھتی ہے۔ اس کی 11 ذیلی تنظیمیں ہیں۔ یہ کمپنیاں شہداء فاؤنڈیشن کے ذریعہ تشکیل دی گئیں اور ان کے منافع حزب اللہ کی مسلح کارروائیوں کے متاثرین کے لواحقین کے لیے مالی اعانت کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

مکمل خاموشی

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ حزب اللہ نے امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے اپنی ذیلی تنظیموں پر عائد پابندیوں پر براہ راست میڈیا میں تبصرہ کرنے سے گریزکی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ 29 فروری سنہ 2020 کے مقرب کچھ لبنانی ذرائع ابلاغ نے دعوی کیا کہ امریکی پابندیوں کا اثر حزب اللہ اور لبنانی معیشت دونوں پر پڑے گا مگر وہ زیادہ نہیں ہوسکتا بلکہ معمولی ہوگا۔

ان ذرائع ابلاغ نے امریکی فیصلے کے محدود اثرات کا جواز پیش کرنے کی وجوہات بیان کرتےہوئے کہا کہ یہ کمپنیاں جنہیں امریکا نے بلیک لسٹ کیا ہے دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی کمپنیاں ہیں۔ امریکی پابندیوں سے ان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔ یہ ہمیشہ کی طرح اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں گی۔

میڈیا پلیٹ فارم جہاں تک یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ یہ کمپنیاں براہ راست درآمدی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ معاہدہ نہیں کیا بلکہ صرف لبنانی درآمد کنندگان کے ساتھ ہی ڈیل کی۔ اس تناظر میں یہ بھی کہا گیا کہ پچھلے تجربوں سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ لبنانی امپورٹروں نے حزب اللہ کمپنیوں کے ساتھ کام یا اس کی حمایت نہیں کی ہے۔

مقبول خبریں اہم خبریں