برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے اتوار کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ برطانیہ میں نسل پرستی مخالف مظاہروں کو "غنڈہ گردی" کرکے خراب کردیا گیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پرامن مظاہروں کو غنڈہ گردی کی بھینٹ چڑھانے والوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔
خیال رہے کہ کل اتوار کے روز دسیوں ہزار افراد لندن میں سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے امریکی شہر منی پولس میں جارج فلائیڈ کے قتل کی مذمت کے لیے لگاتار دوسرے دن بھی مظاہرہ کیا۔اس موقعے پر مظاہرین اور پولیس کےدرمیان جھڑپیں ہوئیں۔
People have a right to protest peacefully & while observing social distancing but they have no right to attack the police. These demonstrations have been subverted by thuggery - and they are a betrayal of the cause they purport to serve. Those responsible will be held to account.
— Boris Johnson #StayAlert (@BorisJohnson) June 7, 2020
قبل ازیں ہفتہ کے روز لندن میں ڈاوننگ اسٹریٹ میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے قریب جھڑپ کر رہے تھے۔ مظاہرین اور پولیس میں ہونے والی جھڑپوں میں چودہ پولیس اہلکار معمولی زخمی ہوگئے تھے۔
جانسن نے ٹویٹر پر کہا کہ لوگوں کو معاشرتی دوری کو مدنظر رکھتے ہوئے پرامن احتجاج کرنے کا حق ہے لیکن انہیں پولیس پر حملہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مظاہرے غنڈہ گردی کے ذریعہ بگاڑ دیئے گئے ہیں اور وہ اس مقصد کے ساتھ خیانت کر رہے ہیں جس کی وہ حمایت کرتے ہیں۔ ان کے ذمہ داروں کو جوابدہ کیا جائے گا۔
bristol in three acts pic.twitter.com/DIYh5usmmB
— Josh Begley (@joshbegley) June 7, 2020
برطانیہ میں نسل پرستی کے خلاف احتجاج کے دوسرے دن مظاہرین نے برسٹل میں ایک غلام تاجر کا مجسمہ اتارا اور اسے ندی میں پھینک دیا۔
برسٹل میں مظاہرین نے 17 ویں صدی کے ممتاز غلام تاجر کے مجسمے کو ایڈورڈ کولسٹن کا مجسمہ گرانے کے لئے رسے استعمال کیے۔
کولسٹن رائل افریقی کمپنی کا ملازم تھا۔ اس کمپنی نے امکان ظاہر کیا تھا کہ افریقہ سے 80،000 سے زیادہ مرد ، خواتین اور بچوں کو غلام بنا کر امریکا منتقل کیا گیا تھا۔
سنہ 1721 میں کولسٹن کی وفات کے بعد اس کی وصیت کے مطابق اس کی دولت خیرات کردی گئی تھی۔ بریسٹل شہرمیں اب بھی ایسی یادگاریں اور عمارتیں موجود ہیں۔