سعودی عرب کی سرحد پر ایک اور حزب اللہ کا وجود قبول نہیں: برائن ہک

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

ایران کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی برائن ہک نے کہا ہے کہ امریکا سعودی سرحد پر لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کی طرز پر کسی اور گروپ کو سر اٹھانے کی اجازت نہیں دے گا۔

انہوں نے العربیہ اور الحدث ٹی وی چینلوں سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے خود ایران کی طرف سے یمن کے حوثی باغیوں کو دیے گئے ہتھیار دیکھے ہیں۔ جب میں نے سعودی عرب کا دورہ کیا مجھے ایران کی طرف سے حوثٰی باغیوں کو ایرانی اسلحیہ اور فوجی سازو سامان کی فراہمی کے ثبوت دکھائے گئے تھے۔ برائن ہک کا کہنا تھا کہ میں نے الریاض میں سعودی عرب کے نائب وزیر دفاع شہزادہ خالد بن سلمان سے بھی یمن کے حوثی باغیوں کے بارے میں تفصیل سے تبادلہ خیال کیا تھا۔

Advertisement

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ واشنگٹن ایران پر حوثیوں کی مالی مدد کم کرنے کے لیے طرف دباؤ ڈال رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تہران کے بارے میں ہماری حکمت عملی تین پہلوئوں پر مبنی ہے - معاشی پابندیاں ، سفارتی تنہائی اور فوجی طاقت کا استعمال جیسے تین آپشن ہیں۔

شام کے تنازع کے بارے میں بات کرتے ہوئے امریکی ایلچی نے کہا کہ ہمارا مقصد ایرانی ملیشیاؤں کو شام سے نکالنا ہے۔ تہران کی ملیشیائیں شام کی سرزمین پر منتقل ہو رہی ہیں اور شمالی شام میں اپنا اثرو نفوذ بڑھا رہی ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں برائن ہک کا کہنا تھا کہ شام کے حوالے سے ایران کی خارجہ پالیسی اور حزب اللہ کے بارے میں روس اور شامی حکومت کی دلچسپی کم ہوئی ہے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ شام کی تعمیر نوکے لیے 400 ارب ڈالرکی رقم درکار ہے۔ روس یہ قیمت ادا نہیں کرے گا۔

انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ امدادی ممالک اور ہم اس وقت تک تعمیر نو میں ایک پیسہ بھی ادا نہیں کریں گے جب تک کہ ہم شام سے ایرانی ملیشیا کا خاتمہ نہیں کردیتے۔

حزب اللہ کے بارے میں ، ہک نے دعویٰ کیا کہ ایران نے حزب اللہ کو اپنے بجٹ کا 70 فیصد فراہم کیا ہے۔ تہران کے بارے میں امریکا کی پالیسی نے حزب اللہ کو اس حد تک کمزور کردیا کہ حسن نصراللہ چندہ مانگ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم حزب اللہ پر عائد پابندیوں کے نتائج سے خوش ہیں۔ جرمنی کی جانب سے حزب اللہ کو بلیک لسٹ اور دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

برائن ہک نے کہا کہ حزب اللہ لبنان کی کمزوری کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہماری پالیسی لبنانی عوام کے ساتھ کھڑی ہونے کی ہے اور ہم نے بدعنوانی ، بے روزگاری اور معیشت کی بحالی کے حق میں مظاہرے دیکھے ہیں۔ حزب اللہ اپنے ملک میں ہونے والے معاشی بحران کے نتائج کی ذمہ دار ہے۔

مقبول خبریں اہم خبریں