صومالیہ کے دارالحکومت مقدیشو میں ہفتے کے روز ایک فوجی اڈے پر زودار دھماکا ہوا ہے جس کے نتیجے میں آٹھ افراد ہلاک اور چودہ زخمی ہوگئے ہیں۔سخت گیر جنگجو گروپ الشباب نے اس بم حملے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔
فوجی اڈے کے نزدیک مقیم ایک خاتون حلیمہ نے بتایا ہے کہ دھماکے کے بعد آسمان کی جانب دھواں بلند ہونا شروع ہوگیا تھا اور فوجیوں نے فائرنگ بھی کی ہے۔انھوں نے مزید بتایا ہے کہ انھوں نے ایک فوجی پک اپ پر بہت سے خون آلود فوجیوں کو جائے وقوعہ سے لے جاتے ہوئے دیکھا ہے لیکن وہ یہ نہیں جانتی ہیں کہ پک اپ میں ڈالے گئےفوجی زخمی حالت میں تھے یا ان میں سے بعض جان کی بازی ہار چکے تھے۔
صومالی فوج کے ایک میجرعبدالالٰہی محمود نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ ’’یہ ایک حملہ تھا۔ یہ خودکش کار بم حملہ ہونا چاہیے۔میں اب زخمیوں کو اسپتال منتقل کررہا ہوں۔‘‘
سخت گیر جنگجو گروپ الشباب نے اس بم حملے کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔اس گروپ کی عسکری کارروائیوں کے ترجمان عبدیاسیس ابو مصعب نے کہا ہے کہ ’’ ہم نے مقدیشو میں واقع ایک فوجی اڈے پرکامیاب فدائی کارروائی کی ہے۔‘‘
ترجمان نے دعویٰ کیا ہے کہ ’’اس حملے میں دشمن کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے،بہت سے افراد زخمی ہوگئے ہیں اور فوجی گاڑیاں تباہ ہوگئی ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ الشباب کے جنگجو آئے دن مقدیشو اور اس کے نواحی علاقوں میں اس طرح کے بم حملے کرتے رہتے ہیں۔یہ انتہا پسند گروپ 2008ء سے صومالیہ کی مرکزی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے مسلح کارروائیاں کررہا ہے اور وہ خانہ جنگی کا شکار ملک میں اپنی سخت گیر حکومت قائم کرنا چاہتا ہے۔اس نے سکیورٹی حکام اور حکومتی عہدے داروں پر اب تک بیسیوں بم حملے کیے ہیں۔ان میں سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
یادرہے کہ صومالیہ میں 1991ء میں سابق صدر سید بارے کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے خانہ جنگی جاری ہے۔ تب مختلف قبائلی جنگی سرداروں نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور اس کے بعد پھر وہ باہم دست وگریبان ہوگئے تھے۔ تب سے صومالیہ میں بین الاقوامی کاوشوں کے باوجود امن قائم نہیں ہوسکا ہے۔