بھارت:فیس بُک پراسلام مخالف پوسٹ کے ردِّعمل میں پُرتشدد احتجاج، تین افراد ہلاک،100 گرفتار
بھارت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے گڑھ بنگلور میں فیس بُک پر توہین رسالت پر مبنی ایک پوسٹ کے ردعمل میں پُرتشدد ہنگامے ہوئے ہیں۔ پولیس اور ہزاروں مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں جبکہ پولیس نے ایک سو سے زیادہ افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بنگلور میں اسلام مخالف پوسٹ کے خلاف تشدد آمیز مظاہرے منگل کی شام سات بجے شروع ہوئے تھے اور یہ رات بارہ بجے تک جاری رہے تھے۔ پولیس نے بدھ کی صبح 110 مظاہرین کو گرفتار کر لیا ہے۔
اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کانگریس سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی رکن پارلیمان اکھنڈا سری نواسا مرٹھی کے ایک قریبی رشتے دار نے فیس بُک پر ایک پوسٹ میں پیغمبراسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی تھی۔اس کی اس مذموم حرکت کے خلاف تشدد آمیز احتجاج شروع ہوگیا تھا۔ بعد میں اس پوسٹ کو حذف کیا جاچکا ہے۔
اس پوسٹ کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا ایک ہجوم رکن پارلیمان کے گھر کے باہر جمع ہوگیا تھا اور انھوں نے وہاں کھڑی دو کاروں کو نذر آتش کردیا تھا۔پولیس نے بنگلور میں پُرتشدد احتجاج کے الزام میں سماجی جمہوری پارٹی کے ایک لیڈر مزمل پاشا اور چھے دوسرے افراد کو بھی گرفتار کر لیا ہے اور ان سے پوچھ تاچھ کی جارہی ہے۔
بنگلور کے پولیس کمشنر کمال پینٹ نے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ کانگریسی رکن کے رشتے داروں کو توہین آمیز پوسٹ کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے اور شہر میں اب صورت حال کنٹرول میں ہے۔
مظاہرین نے رات احتجاجی مظاہرے کے دوران میں ایک پولیس اسٹیشن پر بھی دھاوا بول دیا تھا اور وہاں کھڑی گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی۔انھوں نے تھانے کی عمارت میں گھسنے کی کوشش کی تھی اور ان کی پولیس سے جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ان میں کم سے کم 60 پولیس اہلکار اور افسر زخمی ہوگئے تھے۔
پولیس نے متشدد مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے براہ راست فائرنگ کی تھی اور اشک آور گیس کے گولے پھینکے تھے جس سے تین افراد شدید زخمی ہوگئے تھے۔آج شہر میں امن وامان کی صورت حال برقرار رکھنے کے لیے اضافی نفری طلب کر لی گئی تھی اورکم سے کم دس ہزار پولیس اہلکار شہر میں گشت کررہے تھے۔
ریاست کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بی ایس یدی یوراپا نے پولیس کو متشدد مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے اور عوام سے بھی کہا ہے کہ وہ امن وامان کو برقرار رکھیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت اشتعال انگیزی اور افواہوں کو برداشت نہیں کرے گی۔
پاکستان کا ردِّعمل
پاکستان کے دفترِخارجہ نے بنگلورمیں پرتشدد مظاہروں کی اطلاع منظرعام پر آنے کے بعد ایک بیان جاری کیا ہے اور سوشل میڈیا پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر مبنی پوسٹ پر سخت احتجاج کیا ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے بتایا کہ پاکستان نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمیشن کو اپنی تشویش سے آگاہ کردیا ہے اور کہا ہے کہ وہ بنگلور میں ایک انتہا پسند ہندو کی جانب سے توہین آمیز پوسٹ کی شدید مذمت کرتا ہے۔اسلام کے خلاف توہین آمیز پوسٹ سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔اس سے بھارت میں اسلامو فوبیا میں اضافے اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی بھی عکاسی ہوتی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’’ بھارتی پولیس نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کو روکنے کے بجائے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا ہے اور تین مظاہرین کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کردیا ہے۔نیز شہر میں مسلم برادری سے ناانصافی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انھیں ہی بلوے اور پولیس اہلکاروں پر حملے کا مورد الزام ٹھہرایا جارہا ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف تشدد آمیز کارروائیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات ہندوتوا کے انتہاپسند نظریے پرعمل درآمد کا نتیجہ ہیں۔پاکستان نے بھارت سے بنگلور میں پیش آنے والے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ بھارت میں وقفے وقفے سے اس طرح کے ہندومسلم فرقہ وار فسادات ہوتے رہتے ہیں۔اس سال کے اوائل میں دارالحکومت دہلی میں فرقہ وار واقعات میں 50 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ان میں زیادہ تر مسلمان تھے۔