یو اے ای ، اسرائیل امن ڈیل امریکی صدر ٹرمپ کے ’’پالیسی انقلاب‘‘ کی فتح قرار

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

امریکا کے ایک معروف تجزیہ کار نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سمجھوتے میں مصالحانہ کردار کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پالیسی انقلاب کی فتح کا مظہر قرار دیا ہے۔

اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں گذشتہ جمعرات کو ایک امن معاہدے کا اعلان کیا ہے۔اس کے تحت دونوں ملک مکمل سفارتی تعلقات قائم کریں گے اور اسرائیل اس کے بدلے میں غرب اردن میں فلسطینیوں کی مزید اراضی کو نہیں ہتھیائے گا۔

Advertisement

امن معاہدے کے تحت اسرائیل اور یو اے ای کے وفود آیندہ ہفتوں کے دوران میں ملاقات کریں گے اور وہ سرمایہ کاری ، سیاحت ، براہ راست پروازیں شروع کرنے ، سکیورٹی ، ٹیلی مواصلات ، ٹیکنالوجی ، توانائی ، تحفظ صحت ، ثقافت ، ماحول اور ایک دوسرے کے ملک میں اپنے اپنے سفارت خانے کھولنے اور بعض دوسرے شعبوں میں دوطرفہ تعاون کے فروغ کے لیے مختلف سمجھوتوں پر دست خط کریں گے۔

امریکا سے تعلق رکھنے والے قومی سلامتی اور سیاسی امور جنگ کے ماہر تجزیہ کار ڈیوڈ ریبوئی نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس معاہدے پر یہ تبصرہ کیا ہے:’’انھوں نے بڑی تیزی سے چیزوں کا ادراک کیا ہے۔اوباما انتظامیہ جو کچھ کررہی تھی،یہ اس سے بالکل مختلف ایک انقلاب ہے۔ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہم قومی ریاستوں سے معاملہ کررہے ہیں کیونکہ ان ریاستوں کے لیڈروں کے مفادات ہوتے ہیں۔‘‘

انھوں نے اپنی اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ سابق امریکی صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے اسلامی دنیا کے ساتھ ایک بالکل مختلف شناخت سے سلسلہ جنبانی شروع کیا تھا جبکہ ٹرمپ انتظامیہ کی قومی ریاستوں سے رابطے کی تدبیر زیادہ کامیاب رہی ہے اور اس کا ثبوت جمعرات کو ڈیل کے اعلان کی صورت میں فراہم ہوا ہے۔

ان کی رائے میں ’’ ٹرمپ انتظامیہ نے دانش مندی سے یہ کہا ہے کہ ہم ان ریاستوں سے مذاکرات کررہے ہیں جن کے حقیقی معنوں میں مفادات اور قائدین ہیں۔ میرے خیال میں آپ نے اس کے بعض ثمرات جمعرات کو دیکھے ہیں۔یہ ثمرات دراصل 2017ء میں صدر ٹرمپ کے خطے کے دورے کا تسلسل ہیں۔‘‘

غیر مختتم مذاکرات کا خاتمہ

مشرقِ اوسط کے خطے میں اسرائیل کے 1948ء میں قیام کے بعد سے تنازع موجود ہے۔تاہم مسٹر ریبوئی کا خیال ہے کہ اس تنازع کو قبل ازیں بھی طے کیا جاسکتا تھا لیکن ایسا تب ممکن تھا جب وہ بیرونی قوتیں نہ ہوتیں جو تنازع کو جاری وساری رکھنے کے حق میں ہیں۔

بیرونی قوتوں سے ان کی مراد مغربی قوتیں ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’’ مغرب ، اقوام متحدہ ، یورپی یونین اور امریکا کی بعض انتظامیہ نے امن مذاکرات کاروں کی ایک پوری صنعت قائم کررکھی ہے۔اس سفارتی صنعت سے وابستہ لوگوں کا مفاد اسی میں وابستہ ہے کہ دنیا میں تنازعات اور غیرمختتم بات چیت کا سلسلہ جاری رہے۔‘‘

ریبوئی کے بہ قول ’’صدر ٹرمپ کی ثالثی میں یو اے ای اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والی ڈیل اس گول’چکر‘ کے خاتمے کی نمایندہ ہوسکتی ہے کیونکہ صدر ٹرمپ نے ان لیڈروں سے ڈیل طے کرنے کی کوشش کی ہے جو ان کے بہ قول زیادہ ’’مستند‘‘ اور ’’بہت مثبت‘‘ ہیں۔‘‘

امریکی ماہر نے اپنی گفتگو کے آخر میں کہا کہ ’’اگر اسرائیل اور یو اے ای کے درمیان تعلقات استوار ہوتے ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ بھی تعلقات قائم ہوتے ہیں تو یہ سب کچھ بہت مثبت ہوگا۔میں جانتا ہوں کہ میں اور اسرائیل نواز کیمپ سے تعلق رکھنے والے بہت سارے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ سعودی عرب ایسے ملک کے ساتھ امن اور تعلقات قائم ہوجاتے ہیں تو یہ ایک بہت زبردست معاملہ ہوگا۔‘‘

مقبول خبریں اہم خبریں