وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی کا واشنگٹن کا دورہ "ایک حسّاس وقت میں اور علاقائی خطرات کے بیچ" ہو رہا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "ہمارا مقصد عراق میں ایران کے شرم ناک برتاؤ کو روکنا ہے۔ ہم اس مقصد کے حصول کے لیے عراقی حکومت کی مدد کریں گے۔ ہم ایران اور عراق کے درمیان مذہبی روابط کو سمجھتے ہیں"۔ بیان کے مطابق بات چیت میں عراق میں ترکی کا کردار بھی زیر بحث آئے گا۔
وائٹ ہاؤس نے مزید کہا کہ " ہم عراق کو ایک خود مختار اور ترقی کرتے ہوئے ملک کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں ،،، اسی طرح ہم داعش تنظیم کو واپس لوٹنے سے بھی روکنا چاہتے ہیں"۔ بیان کے مطابق "بات چیت میں عراق میں اقلیتوں اور داعش کی شکست کے بعد ان کے تحفظ کا معاملہ بھی زیر بحث آئے گا۔ عراقی حکومت کی جانب سے کردستان ریجن کی سپورٹ اہم ہے"۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق عراقی وزیر اعظم کے دورے میں معیشت سے متعلق معاملات بنیادی توجہ کا مرکز ہوں گے۔ توانائی اور سرمایہ کاری کے امور پر بھی بات چیت ہو گی۔ عراق میں توانائی اور بجلی کے شعبے میں امریکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری پر بھی مذاکرات ہوں گے۔
ادھر امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر اور ان کے عراقی ہم منصب جمعہ سعدون نے دو طرفہ سیکورٹی شراکت داری اور عراقی سیکورٹی فورسز کی صلاحیتوں میں اضافہ جاری رکھنے کی اہمیت پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں وزراء نے باور کرایا کہ عراقی سیکورٹی فورسز اور امریکا کے زیر قیادت عالمی اتحاد کے درمیان تعاون جاری رہے گا۔ اس کا مقصد داعش تنظیم کو ہزیمت سے دوچار کرنا اور عراق میں امن و استحکام اور ترقی کو یقینی بنانا ہے۔
اس سے قبل عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمی ایک وفد کے ہمراہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن پہنچے تھے۔
عراقی وزیر اعظم جمعرات کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ اس کے علاوہ مصطفی الکاظمی عراق کی تعمیر نو کے حوالے سے کئی بڑی امریکی کمپنیوں اور اقتصادی اداروں کے اعلی عہدے داران کے ساتھ بھی ملاقاتیں کریں گے۔
عراقی وفد میں شامل ذمے داران کا کہنا ہے کہ اس دورے میں گیس، تیل اور بجلی کے شعبوں میں بری کمپنیوں کے ساتھ معاہدوں پر دستخط بھی ہوں گے۔