ترکی اور یورپ بالخصوص فرانس کے درمیان تناؤ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران فرانسیسی صدر عمانوئل ماکروں نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن اور ان کی توسیع پسندی پر مبنی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
جمعرات کے روز فرانسیسی جریدے "پیرس میچ" میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں ماکروں کا کہنا ہے کہ "اُن کے تُرک ہم منصب نے توسیعی پالیسی اپنا رکھی ہے جو یورپی مفادات سے میل نہیں کھاتی ہے یہ یورپ کو عدم استحکام سے دوچار کرنے والا عامل ہے"۔
فرانسیسی صدر نے مزید کہا کہ "یورپ پر لازم ہے کہ وہ ان امور کا دُو بدُو مقابلہ کرے اور اپنی ذمے داری پوری کرے۔ میں جارحیت یا زیادتی کی تائید نہیں کرتا مگر متوازی صورت میں جواب ضروری ہے۔ میں کمزور سفارت کاری پر یقین نہیں رکھتا۔ ہم یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ یورپ کی یک جہتی معنویت کی حامل ہے"۔
یہ انٹرویو عمانوئل ماکروں اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے درمیان ملاقات سے چند گھنٹے قبل سامنے آیا ہے۔ یہ ملاقات فرانس کے جنوب مشرق میں واقع بریگینسن کے قلعے میں ہو گی۔
فرانسیسی صدر کا بیان ایسے وقت میں دیا گیا ہے جب حالیہ چند ماہ میں ترکی اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات میں شدید بگاڑ آ چکا ہے۔ اس دوران ترکی بحیرہ روم کے مشرق میں توسیعی علاقائی قوت کے طور پر تصرفات کا اظہار کر رہا ہے۔
بدھ کے روز جاری بیان میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے اس عزم کا اظہار کیا کہ "قزّاقوں کے سامنے جھکا نہیں جائے گا"۔ انہوں نے مزید کہا کہ بحیرہ روم میں متنازع پانی میں توانائی کے ذرائع کی دریافت کا کام جاری رہے گا۔
ادھر یونان اور قبرص نے اعلان کیا ہے کہ یورپی یونین پابندیوں کی فہرست پر کام کر رہی ہے۔ یہ پابندیاں ترکی کی جانب سے بارہا دہرائی جانے والی خلاف ورزیوں بالخصوص بحیرہ روم کے مشرق میں کارروائیوں کے سبب انقرہ پر عائد کی جا سکتی ہیں۔
یونان اور قبرص کے وزراء خارجہ کے مطابق ترکی کا برتاؤ غیر قانونی ہے ،،، آئندہ ماہ ستمبر میں یورپی یونین میں شامل بحیرہ روم کے سات ممالک کے سربراہان اکٹھا ہوں گے جہاں اس معاملے کو زیر بحث لایا جائے گا۔ بعد ازاں یورپی یونین کے تمام سربراہان کے اجلاس میں بھی اس پر بات چیت ہو گی۔
دونوں وزراء نے ترکی کی جانب سے وسائل کی دریافت کے لیے کھدائی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ انقرہ کی جانب سے بات چیت کی دعوتیں غیر سنجیدہ ہیں۔
ترکی نے گذشتہ ہفتے فرانس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ بحیرہ روم میں "بدمعاشوں" کی طرح پیش آ رہا ہے۔ ترکی نے یونان کو بھی شدید لہجے میں خبردار کیا۔ انقرہ کا یہ موقف پیرس کی جانب سے یونان کی سپورٹ کے لیے بحیرہ روم میں دو فوجی طیارے اور دو بحری جنگی جہازوں کو بھیجنے کے بعد سامنے آیا۔