افغان حکومت کے طالبان سے امن مذاکرات پیچیدہ اور سخت ثابت ہوں گے: امراللہ صالح
افغانستان میں تقسیم درتقسیم پر قابو پانا کوئی آسان کام نہیں ہوگا:العربیہ سے خصوصی انٹرویو
افغانستان میں قیام امن کے لیے صدر اشرف غنی کی مقرر کردہ ٹیم اور طالبان کے درمیان مذاکرات آیندہ چند روز میں شروع ہورہے ہیں۔افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’تاریخ میں یہ امن مذاکرات سب سے مشکل ثابت ہوں گے۔‘‘
انھوں نے خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’ بعض حوالوں سے تو یہ مذاکرات عرب امن عمل سے بھی زیادہ پیچیدہ ثابت ہوں گے۔‘‘
انھوں نے کہا’’ بہت زیادہ خون خرابہ ہو چکا ہے اور بہت زیادہ تقسیم پیدا ہوچکی ہے،اس تقسیم درتقسیم پر قابو پانا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔‘‘
دریں اثناء برطانوی خبررساں ایجنسی رائیٹرز نے سوموار کو یہ اطلاع دی ہے کہ بعض لاجسٹیکل مسائل کی وجہ سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان قطری دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں کچھ تاخیر کردی گئی ہے۔
اس نے ایک ذریعے کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیم منگل کوکابل سے قطر روانہ ہوسکتی ہے۔
گذشتہ ماہ افغان حکومت نے طالبان کے انتہائی خطرناک چار سو قیدیوں کو رہا کردیا تھا۔ طالبان کی قیادت نے امن عمل کی بحالی کے لیے صدر اشرف غنی سے ان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
امراللہ صالح نے ان خطرناک قیدیوں کی رہائی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس اقدام کے باوجود طالبان اگر اب امن بات چیت سے دستبردار ہوجاتے ہیں تو یہ ’’امن کے چہرے پر ایک تھپڑ‘‘ کے مترادف حرکت ہوگی۔
انھوں نے کہا کہ ’’طالبان اگر امن مذاکرات سے راہ فرار کا کوئی اور بہانہ ڈھونڈ لیتے ہیں تو یہ عالمی برادری کے چہرے پر ایک تھپڑ ہوگا کیونکہ اس نے ہمیں یہی کہا تھا کہ یہ طالبان کا آخری بہانہ ہوگا۔ان کا اب کوئی نیا بہانہ خود امن کے مُنھ پر بھی ایک تھپڑ ہوگا۔‘‘
امراللہ صالح خود کو سیاسی طور پر طالبان کا مخالف قرار دیتے ہیں۔انھوں نے خبردار کیا ہے کہ طالبان اب مزید رعایتیں لینے کے لیے ’’تشدد‘‘ کو بروئے کار لاسکتے ہیں۔وہ جو کوئی بھی اقدام کریں گے تو اس سے امن عمل پیچیدگی کا شکار ہوجائے گا۔
افغان نائب صدر نے انٹرویو میں امن مذاکرات کو ایک جانب تو پیچیدہ قرار دیا ہے لیکن ساتھ ہی اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ یہ عمل حکومت اور طالبان کے درمیان ایک جامع سمجھوتے کی جانب پیش رفت کا آغاز ہوگا۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’’طالبان کے ساتھ امن کا مطلب ان کے سامنے ہتھیار ڈالنا یا سرنڈر کرنا نہیں،اس کا مطلب زندگی کے دو دھاروں کو قومی چھت کے تلے لانا ہے۔‘‘