امریکا ایران پر براہ راست مالی اور معاشی پابندیوں کے اعلان نے تہران کو ایک نئی مشکل میں ڈال دیا ہے مگر بعض رپورٹس بتاتی ہیں کہ ایران اور دہشت گرد گروپ پابندیوں کے باوجود ماضی میں اربوں ڈالر منتقل کرتے رہے مگر بنک ان رقوم کی منتقلی نہیں روک پائے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے پیر کو اعلان کی گئی نئی پابندیوں کا مقصد ایران کو الگ تھلگ کرنا ہے انہیں امریکا کی "پابندیوں" کے استعمال کی بہترین مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان پابندیوں کا ہدف نہ صرف ایران ہوگا بلکہ وہ تمام غیرملکی کمپنیاں اور ادارے بھی ان کا ہدف بنیں گے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکا نے بین الاقوامی کمپنیوں کو ایران کے ساتھ کاروبار سے دور رکھنے میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کی ہے۔ جب سے واشنگٹن 2018 میں جوہری معاہدے سے دستبردار ہوا اس کے بعد فرانس کی 'ٹوٹل' اور دیگر تیل کمپنیوں نے ایران میں تیل کی تلاش اور نکاسی کے منصوبوں پر کام کرنے سے گریز کیا ہے۔
2 کھرب کا اسکینڈل
تاہم بز فیڈ فاؤنڈیشن کی ایک پریس تحقیقات میں امریکی خزانے کے نگرانی کے اداروں کے سرکاری بیانات اور دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ دہشت گرد تنظیمیں اور آمرانہ ریاستیں یا دہشت گردی کے کفیل افراد بیس سال کے اندر اندر امریکی اور غیر امریکی بینکوں کے ذریعہ 2کھرب ڈالر سے بھی کم رقم منتقل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس میں منشیات کے پیسے، سامان تجارت کی رقوم اور اسمگلنگ رقوم شامل ہیں۔
امریکی قانون میں بینکوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ انہیں رقوم کے بارے میں شبہ ہے تو وہ ہر بار "کریمنل نیٹ ورکس جنگی فنانسنگ ایجنسی"کو رپورٹ کریں۔ ان کی ابتدا منی لانڈرنگ سے ہوتی ہے۔ وہ کسی ایسی تنظیم ، شخص یا ملک میں بھیجی جاتی ہے جس پر دہشت گردی کا الزام ہے اور وہ مجرمانہ سرگرمیوں کی سرپرستی کرتا ہے۔
دستاویزات میں انکشاف ہوا ہے کہ بینکوں نے ایسا رقوم کی منتقلی روکنے کی ذمہ دار ایجنسی کو مطلع بھی یا لیکن منتقلی کو روکنے میں ناکام رہے۔ امریکی سرکاری ادارہ بھی منتقلی روکنے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنے میں ناکام رہا۔
ترکی اور ایران کے مابین 20 ارب
انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس آف ڈیموکریسی کے جوناتھن اسکنزر اور امریکی محکمہ خزانہ کے ایک سابق عہدیدار نے اس خبر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ "رضا زاراب نیٹ ورک کے آپریشن کے دوران ترکی اور ایران کے مابین جو رقم منتقل ہوئی ہے اس کا تخمینہ 20 ارب ڈالر ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس میں لبنان اور جنوبی امریکا کے درمیان حزب اللہ کے فائدے کے لیے منتقل کردہ فنڈز شامل نہیں ہیں۔
حزب اللہ کے نام پر کارکنوں کے خلاف مقدمہ کے سابقہ کاغذات جن پر جنوبی امریکا اور افریقہ سے رقم کی منتقلی کا الزام عائد کیا گیا تھا انکشاف ہوا ہے کہ وہ ایرانی تنظیم کو اربوں کی منتقلی کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ مثال کے طور پر قاسم تاج الدین کے خلاف دائر فرد جرم کے مطابق 2009 اور 2016 کے درمیان امریکی بنکوں کے ذریعے حزب اللہ کو 50 ملین ڈالر کی رقم منتقل کی گئی تھی۔