کویت میں تارکینِ وطن کی تعداد محدود کرنے کے لیے مسودۂ قانون کی منظوری

پہلی اشاعت: آخری اپ ڈیٹ:
مطالعہ موڈ چلائیں
100% Font Size

کویت کی قومی اسمبلی نے ریاست میں آیندہ پانچ سال کے دوران میں تارکینِ وطن کی تعداد میں کمی سے متعلق ایک مسودۂ قانون کی منظوری دی ہے۔

کویت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق نئے مسودۂ قانون میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ تارکینِ وطن کی تعداد میں کتنے فی صد کمی کی جائے گی اور یہ فیصلہ حکومت پر چھوڑ دیا ہے۔کویتی حکام ملک میں تارکین وطن مزدوروں کی تعداد کم کرنے کے لیے کریک ڈاؤن کررہے ہیں اور یہ قانون بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

کویتی پارلیمان کے رکن اور انسانی وسائل ترقی کمیٹی کے سربراہ خلیل الصالح نے بتایا ہے کہ پینل نے آٹھ مختلف قوانین کے جائزے کے بعد اس بل کا مسودہ تیار کیا ہے۔یہ قوانین پارلیمان کے ارکان نے تجویز کیے تھے۔اس قانون کا مقصد کویت میں تارکین وطن بالخصوص غیر ہُنرمند افرادی قوت کی تعداد میں کمی لانا ہے اور کویت کی آبادی کی تشکیل نو ہے کیونکہ ملک میں غیرملکیوں کی تعداد مقامی آبادی سے کہیں زیادہ ہے۔

اس نئے قانون میں تارکین وطن کی کسی خاص شرح کو ملک میں رہنے کی اجازت دینے کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔البتہ اس میں حکومت کو غیر ملکیوں کی کویت میں تعداد کے بارے میں نئے قواعد وضوابط کے اجرا کے لیے چھے ماہ کی مہلت دی گئی ہے۔ کویتی حکومت اب مختلف شعبوں میں بھرتی کیے جانے والے تارکین وطن کی تعداد کا ازخود تعیّن بھی کرے گی۔

تاہم تارکین وطن کے بعض زمرے نئے قواعد وضوابط کی زد میں نہیں آئیں گے اور انھیں استثنا حاصل ہوگا۔ان میں خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک سے تعلق رکھنے والے شہری ، جج صاحبان ،شہری ہوابازی کے شعبے میں کام کرنے والے افراد، گھریلو ملازمین ، بڑے منصوبوں پر کام کرنے والے ورکر ، طبی اور تعلیمی عملہ ، کویتی مردوں کی غیرملکی بیویاں یا کویتی خواتین کے غیر ملکی شوہر اور ان کے بچے شامل ہیں۔

کویتی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس وقت اس زمرے سے تعلق رکھنے والے غیر ملکیوں کی تعداد دس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔کویت کی قومی اسمبلی اور حکام نے گذشتہ ہفتوں کے دوران میں تارکینِ وطن کی تعداد میں کمی کے بارے میں متعدد قوانین کی منظوری دی ہے۔

اگست میں جاری کردہ ایک قانون کے تحت کویت کی پبلک اتھارٹی برائے افرادی قوت نے سرکاری ملازمین کے ویزوں کی نجی شعبے میں منتقلی پر پابندی عاید کردی ہے۔ اتھارٹی نے اس کے علاوہ منحصر یا طفیلی ویزوں کی نجی شعبے میں کام کے ویزوں میں تبدیلی پر بھی قدغنیں لگا دی ہیں۔

تاہم سرکاری ملازمین کے ویزوں کی نجی شعبے میں تبدیلی پر پابندی کے فیصلے سے بعض لوگ مستثنیٰ ہوں گے۔ان میں کویتی خواتین کے شوہر اور ان کے بچّے ، کویتیوں کی بیویاں ،کارآمد سفری دستاویزات کے حامل فلسطینی اور شعبہ طب میں کام کرنے والے ڈاکٹر حضرات اور نرسیں شامل ہیں۔

ان نئے قواعد وضوابط کے تحت حکومت ملک میں تارکین وطن کی تعداد میں تین لاکھ 60 ہزار تک کمی کرنا چاہتی ہے۔ان میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ تارکِ وطن ورکروں کی عمریں 60 سال سے زیادہ ہیں۔

نئے قانون کے تحت ویزے کی بعض اقسام کی منتقلی پر بھی پابندی عاید کردی جائے گی۔اس ضمن میں مقامی آبادی سے تارکینِ وطن ورکروں کی تعداد کا موازنہ کیا جائے گا۔

گذشتہ ماہ کویت نے 60 سال سے زیادہ عمر کے تارکین وطن کو کام کے لیے اقامے جاری نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ یونیورسٹی کی کوئی ڈگری نہ رکھنے والوں کو 31 اگست کے بعد اقامہ یا ویزا جاری نہیں کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ کویت میں تارکین وطن کل ملکی آبادی کا قریباً 70 فی صد ہیں۔

مقبول خبریں اہم خبریں