آذربائیجان کا ناگورنوقراباغ میں پیش قدمی کا دعویٰ،آرمینیا کا تاریخی جدوجہد کا عزم
آذر بائیجان کی مسلح افواج نے متنازع پہاڑی علاقے ناگورنو قراباغ کو واگزار کرانے کے لیے لڑائی میں پیش قدمی کا دعویٰ کیا ہے جبکہ آرمینیا نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ قراباغ میں آرمینیائی نسل کو آذر بائیجان کے حملوں سے بچانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گا۔
دونوں ملکوں نے فرانس کی بحران کے حل کے لیے مصالحت کی پیش کش کو نظرانداز کردیا ہے اور ان کی فورسز نے ہفتے کو مسلسل ساتویں دن ایک دوسرے کے ٹھکانوں پر گولہ باری جاری رکھی ہے۔
ناگورنو قراباغ میں گذشتہ اتوار سے آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان جاری لڑائی میں اب تک 230 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔طرفین نے ایک دوسرے کے سیکڑوں ٹینکوں کو تباہ کرنے کے دعوے کیے ہیں۔آذری فوج نے لڑائی میں قراباغ کے بعض علاقوں پر قبضے کی اطلاع دی ہے۔آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے قراباغ میں ایک گاؤں پر قبضے پر فوجی کمانڈر کو مبارک باد دی ہے۔
انھوں نے سوشل میڈیا پر یہ اعلان کیا ہے:’’ آج آذری فوج نے مدغیز میں آذر بائیجان کا جھنڈا لہرا دیا ہے،مدغیز اب ہمارا ہے۔‘‘ مگر آزاد ذرائع سے برسرزمین صورت حال کی تصدیق ممکن نہیں۔
دوسری جانب آرمینیا کی وزارت دفاع کے ایک عہدہ دار آرسٹرن ہوفہنسیان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بہ الفاظ دیگر الہام علیوف کے دعوے کی تصدیق کی ہے۔ انھوں نے کہا:’’ اتنی بڑی جنگ کے دوران میں اس طرح کی تبدیلیاں فطری ہیں، ہم ایک پوزیشن لیتے ہیں اور پھر ایک گھنٹے ہی میں اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘
آرمینیائی صدر نیکول پیشینیان نے ایک نشری خطاب میں اپنے ہم وطنوں سے کہا ہے کہ ’’تمام محاذوں پر شدید لڑائی ہورہی ہے۔اب تک ہمارا بہت سا جانی نقصان ہوچکا ہے،فوج اور شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔فوجی آلات کی بڑی تعداد استعمال کے قابل نہیں رہی ہے۔اس کے باوجود دشمن ابھی تک کوئی ایک بھی تزویراتی مسئلہ حل نہیں کرسکا ہے۔‘‘
آرمینیا کی مسلح افواج ناگورنو قراباغ کی فورسز کے شانہ بشانہ آذر بائیجان کی افواج کے خلاف محاذِ اوّل پر نہیں لڑرہی ہیں لیکن صدر پیشینیان نے اس تنازع کو قومی جدوجہد قرار دیا ہے اور اس کا بیسویں صدی کے اوائل میں سلطینت عثمانیہ کی فوج کے خلاف آرمینیا کی جنگ سے موازنہ کیا ہے۔
ان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ’’آرمینیا ناگورنو قراباغ کی سکیورٹی کا ضامن ہے۔ وہ آذر بائیجان کی مسلح افواج کی چیرہ دستیوں کو روکنے کے لیے تمام ضروری وسائل بروئے کار لائے گا اور اقدامات کرے گا۔‘‘
دونوں ملک ایک دوسرے پر غیرملکی جنگجوؤں کو جنگ میں جھونکنے کے الزامات عاید کررہے ہیں۔ ترکی اس لڑائی میں آذربائیجان کی کھل کر حمایت کررہا ہے اور اس پر باکو میں شام سے جنگجوؤں کو بھیجنے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔ان میں متعدد جنگجوؤں کے مارے جانے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔
دوسری جانب روس پر آرمینیا کی فوجی معاونت کا الزام عاید کیا گیا ہے۔اس کا آرمینیا میں ایک فوجی اڈا بھی قائم ہے۔تاہم ترکی اور روس دونوں نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔روسی ماضی میں ان دونوں ملکوں کے درمیان مصالحت کار کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔