سعودی عرب میں ترک کمپنیوں سے کوئی کاروبار نہ کیا جائے:ایوان تجارت کے سربراہ کی اپیل
سعودی عرب کے چیمبر آف کامرس کے سربراہ عجلان العجلان نے مملکت کے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ ترک کمپنیوں سے کوئی کاروبار نہ کیا جائے۔انھوں نے اپنے اس مطالبے کا اعادہ کیا ہے کہ سعودی عرب میں ترکی کی ہرچیز کا بائیکاٹ کیا جائے۔
انھوں نے بدھ کے روز ٹویٹر پر ایک پوسٹ میں کہا ہے کہ:’’میں یہ بات بڑے یقین اور واضح انداز میں کہنا چاہتا ہوں(ترکی سے) کوئی سرمایہ کاری نہیں، کوئی درآمد نہیں، کوئی سیاحت نہیں‘‘۔
وہ مزید لکھتے ہیں:’’ ہمیں شہری اور کاروباری کی حیثیت سے ترکی کی ہرچیز کے ساتھ کوئی معاملہ نہیں کرنا چاہیے۔مملکت میں جو ترک کمپنیاں کاروبار کررہی ہیں،ان کے ساتھ بھی کوئی لین دین نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
العجلان کا کہنا تھا کہ ’’یہ کم سے کم ردعمل ہے، جو سعودی ترکی کے ہماری قیادت اور ہمارے ملک کے خلاف توہین آمیز رویے اور معاندانہ روش کے ردعمل میں کرسکتے ہیں۔‘‘
انھوں نے گذشتہ ہفتے بھی سعودی عرب میں ترکی کی ہرشے کے بائیکاٹ کی اپیل کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ’’ہر سعودی شہری کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ترکی کی مملکت میں درآمدات ،سرمایہ کاری اور سیاحت کا بائیکاٹ کرے۔‘‘
انھوں نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے بیان کے ردعمل میں بائیکاٹ کی یہ اپیل کی تھی۔صدر ایردوآن نے یکم اکتوبر کو کہا تھا کہ ’’خطۂ خلیج کے بعض ممالک ترکی کو ہدف بنا رہے ہیں اور ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں جن سے خطہ عدم استحکام کا شکار ہورہا ہے۔‘‘
انھوں نے ترکی کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے؛جن ممالک کی بات کی جارہی ہے، وہ کل اپنا وجود نہیں رکھتے تھے اور اغلب یہ ہے کہ وہ مستقبل میں بھی موجود نہیں ہوں گے۔تاہم ہم اللہ کی منشا سے اس خطے پر ہمیشہ اپنا پرچم لہراتے رہیں گے۔‘‘
ترک معیشت کی زبوں حالی
ترکی کے خلاف امریکا کی نئی پابندیوں کے منڈلاتے خطرے اور قفقاز میں جاری نئے تنازع کے بعد لیرا کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں گذشتہ ہفتے عشرے میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔کرنسی کی مارکیٹ میں لیرا کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں مزید 7۰93 فی صد گر چکی ہے۔اس سال کے دوران میں اب تک لیرا کی قدر میں 24 فی صد کمی واقع ہوچکی ہے۔
ترکی کے مرکزی بنک کے زرمبادلہ کے ذخائر سکڑ رہے ہیں،اس کی کرنسی مارکیٹ میں مداخلت کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور جغرافیائی ، سیاسی صورت حال سے بھی ترک معیشت بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔
بلومبرگ نے اگلے روز ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ترکی روس سے خرید کردہ ایس 400 میزائل دفاعی نظام کو ٹیسٹ کرنے کی تیاریوں میں ہے،اس صورت میں امریکا اس کے خلاف نئی پابندیاں عاید کرسکتا ہے۔اس کے علاوہ ترکی اور یورپی یونین کے درمیان بھی کشیدگی پائی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ مغربی سرمایہ کار ترکی سے اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں۔ترک پارلیمان کے سابق رکن ایقان اردمیر نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ترکی کو اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کا سامنا ہے،ترک بانڈز اور ایکویٹیز سے مغربی سرمائے کے انخلا نے مسائل کو دوچند کردیا ہے۔‘‘
مگر صدر ایردوآن غیرملکی اداکاروں کو ترکی کی ابتر معیشت کا ذمے دار قراردیتے ہیں۔انھوں نے مئی میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ غیرملکی سازشوں کے ذریعے ملکی معیشت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ ترک حکومت کے مخالفین وزیر خزانہ اور صدر ایردوان کے داماد بیرات البیرق کی پالیسیوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔
طیب ایردوآن کے بعض ناقدین ترک معیشت کی زبوں حالی کا ایک اور بھی سبب بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر ترکی کی اندرونی صورت حال کو بہتر بنانے کے بجائے دوسرے ممالک میں فوجی مداخلت کررہے ہیں۔ وہ شام اور لیبیا کے بعد اب آذر بائیجان میں ترکی کی فوجی مداخلت کا حوالہ دیتے ہیں جہاں ترکی کے عسکری اور مالی وسائل کو جھونکا جا رہا ہے۔