متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان دُہرے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے جمعرات کے روز ابتدائی سمجھوتا طے پا گیا ہے۔اس سمجھوتے کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور فروغ ہے۔
اماراتی وزارت خزانہ کے انڈرسیکریٹری یونس حاجی الخوری کے بہ قول یو اے ای پہلا عرب ملک ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ سرمایہ کاری اور اس کے تحفظ کے لیے یہ سمجھوتا طے کیا ہے۔‘‘
ان کا کہنا ہے کہ ’’اس سمجھوتے کو طے کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور اس امر کا غماز ہے کہ وہ مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کا فروغ چاہتے ہیں۔‘‘
یو اے ای کی سرکاری خبررساں ایجنسی وام کے مطابق اس سمجھوتے کا مقصد سرمایہ کاری کو قومیانے ، ضبطی ، عدالتی قبضے ، اثاثوں کے انجماد ، لائسنس کی بنیاد پر سرمایہ کاری اور منافع کی قابل تبدیلی کرنسیوں میں منتقلی ایسے غیرتجارتی خطرات سے تحفظ مہیا کرنا ہے۔
اس سمجھوتے کے تحت دونوں ملک ایک دوسرے کے سرمایہ کاروں کے ساتھ قومی اور ’سب سے پسندیدہ قوم‘ کا سا برتاؤ کریں گے،سرمایہ کاری سے متعلق تمام موضوعات میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی۔اگر قانون کے مطابق کوئی جائیداد یا سرمایہ ضبط کیا جاتا ہے تو سرمایہ کار کے نقصان کا منصفانہ انداز میں فوری طور پر ازالہ کیا جائے گا۔اس کو سرمایہ کاری کی مارکیٹ قدر کے مطابق معاوضہ دیا جائے گا اور اس کے ساتھ کسی بھی شکل میں اور کسی بھی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ یو اے ای کی حکومت نے 13 اگست کو اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے کے لیے تاریخی امن معاہدے کا اعلان کیا تھا اور پھر اس کی روشنی میں 29 اگست کو ایک فرمان جاری کیا تھا ،اس کے تحت اسرائیل کے معاشی بائیکاٹ سے متعلق یو اے ای کے قانون کو منسوخ کردیا گیا تھا۔
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے 15 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں امریکا کی ثالثی میں طے پانے والے اس معاہدۂ ابراہیم پر دست خط کیے تھے۔ان دونوں ممالک نے مصر اور اردن کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدوں کے ربع صدی کے بعد معمول کے تعلقات استوار کیے ہیں۔
اسرائیل نے اس معاہدے سے قبل اگست میں فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاروں کی بستیوں کو ضم کرنے کے منصوبے سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔یواے ای نے اسرائیل سے امن معاہدے اور معمول کے تعلقات استوار کرنے کے لیے یہی شرط عاید کی تھی۔