سوڈان کی حکومت نے اسرائیل کے ایک وفد کے خرطوم کے دورے کے بارے میں لاعلمی ظاہرکردی ہے۔تل ابیب کے ایک عہدہ دار نے گذشتہ روز اس اسرائیلی وفد کے دورے کی اطلاع دی تھی۔
سوڈانی حکومت کے ترجمان فیصل محمد صالح نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’کابینہ اسرائیلی وفد کے دورے سے آگاہ نہیں ہے۔ہم اس دورے کی تصدیق نہیں کرسکتے ہیں۔ہمیں سوڈانی وفد کے اسرائیل کے دورے کے بارے میں بھی کوئی اطلاع نہیں۔‘‘
اسرائیل کے ایک سینیرعہدہ دار نے سوموار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ایک اسرائیلی وفد کو سوڈان بھیجا گیا ہے۔گذشتہ ماہ دونوں ملکوں کے درمیان معمول کے تعلقات استوار کرنے کے اعلان کے بعد کسی اسرائیلی وفد کا یہ پہلا دورہ تھا۔اسرائیل کے آرمی ریڈیو نے بھی اس دورے کی اطلاع دی تھی۔
اسرائیل اور سوڈان نے ابھی تک اس معاہدے پر باضابطہ طور پر دست خط نہیں کیے ہیں۔ترجمان فیصل صالح نے کہا ہے کہ ’’ہمارا پہلے سے یہ سمجھوتا موجود ہے کہ اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے سے متعلق ڈیل کی عبوری پارلیمان سے منظوری ہونی چاہیے۔‘‘
انھوں نے مزید وضاحت کی ہے کہ اس معاہدے سے قبل اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کا کوئی ابلاغ نہیں ہونا چاہیے۔
سوڈان میں اپریل 2019ء میں سابق مطلق العنان صدر عمر حسن البشیر کی برطرفی کے بعد سے کوئی پارلیمان نہیں ہے۔اس وقت فوج کی نگرانی میں ایک عبوری کونسل ملک کا نظم ونسق چلا رہی ہے اورعبوری پارلیمان تشکیل نہیں پائی ہے۔
سوڈان گذشتہ تین ماہ میں اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے والا تیسرا ملک ہے۔اس سے پہلے یو اے ای اور بحرین نے ستمبر میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے طے کیے ہیں۔
اسرائیل نے معاہدۂ ابراہیم کے نام سے ان معاہدوں کو سراہا ہے لیکن فلسطینیوں نے ان کی مذمت کی ہے اور عرب ریاستوں پر زوردیا ہے کہ جب تک اسرائیل فلسطینی علاقوں پر اپنا قبضہ نہیں چھوڑتا اور فلسطینی ریاست کے قیام سے اتفاق نہیں کرتا،اس وقت تک ان معاہدوں پر عمل درآمد نہ کیا جائے۔