مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں منعقدہ 42 ویں 'انٹرنیشنل فلم فیسٹیول' میں سعودی عرب میں تیار ہونے والی ایک فلم 'حدالطار' نے دھوم مچا دی ہے۔ اس فلم کی مرکزی کہانی دنیا کے مختلف معاشروں میں پائے جانے والے اختلافات اور تضادات ہیں جنہیں اجاگر کرکے تہذیبوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق سعودی فلم پروڈویوسر عبد العزیز الشلاحی کی تیار کردہ فلم "حد الطار" قاہرہ بین الاقوامی فلمی مقابلے میں بے حد پسند کی گئی ہے۔ فلم کے کے جمالیاتی پہلوئوں کو بھی کافی داد اورحوصلہ افزائی ملی ہے۔ مصر کے اوپیرا ہاؤس میں سجنے والے میلے میں عرب سنیما مقابلہ کی پر ہرطرف اس فلم کی دھوم مچ گئی۔ اس طرح فلم 'حد الطار' کوبین الاقوامی مقابلے کے لیے اہم پوزیشن حاصل ہوگئی ہے۔
نوے کی دہائی کے آخر میں مفرج المجفل کی لکھی گئی کہانی کے واقعات میں کُچھ رواج چُھپی ہوئی دنیاوں کے گرد گھومتے ہیں۔ ان واقعات میں بتایا گیا ہے کہ کیسے بعض معاشروں کی نئی نسل کو ان کے آبائو اجداد کی روایات کی طرف پلٹنے سے روکا جاتا ہے۔ اس طرح ماضی کی کہانیوں کی داستانیں ختم کی جا رہی ہیں۔
رسم و رواج سے الگ الگ چھپی ہوئی دنیاوں میں جو اپنے لوگوں کو یادداشت اور تحریری کہانیوں کے سوا دریافت کے جبلت کو راضی کرنے سے روکتی ہیں اس فلم کا حصہ ہیں۔ فلم بین معاشرتی تضادات کو دلچسپ پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ ایسے معاشرے جو خوشی بیچتے اور موت خریدتے ہیں۔۔
فلم "حد الطار" دُنیا کے تمام ممالک کے متعدد معاشروں میں اختلافات پر غور کیے بغیر تضادات کو بیان کرنے کی کوشش ہے۔
فلم کی کہانی پیشے میں دو انتہائوں کے مابین محبت کے رشتے کے گرد گھومتی ہے جس طرح سے لوگ اپنی ہر چیز کو چھپانا چاہتے ہیں اور جس چیز کو وہ کہنا چاہتے ہیں اس کا احاطہ کرتے ہیں۔
مصری اوپیرا ہاؤس میں فلم کی نمائش کے بعد سیمینار میں فلم کے ہدایتکار نے فلم کی کہانی کے بارے میں کہا یہ ایک خیالی فلم کی جامع کہانی ہے لیکن اس کے واقعات حقیقی اور موجودہ واقعات کی طرح ہیں۔ تلوار،باز اور گلوکار اسی محلے میں رہتے ہیں۔ وہ محلے اور اس کی دنیا میں آباد ہیں۔